پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ
پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ وارفتہ نہ رہ اس کا دلا بے گہ و گاہ دیوانگی کرنے کی جگہ بھی ٹک دیکھ جا ملتی ہے یہ کوچۂ زنجیر میں راہ
اردو کے پہلے عظیم شاعر جنہیں ’ خدائے سخن ‘ کہا جاتا ہے
One of the greatest Urdu poets. Known as Khuda-e-Sukhan (God of Poetry)
پرپیچ بہت ہے شکن زلف سیاہ وارفتہ نہ رہ اس کا دلا بے گہ و گاہ دیوانگی کرنے کی جگہ بھی ٹک دیکھ جا ملتی ہے یہ کوچۂ زنجیر میں راہ
ہم میرؔ سے کہتے ہیں نہ تو رویا کر ہنس کھیل کے ٹک چین سے بھی سویا کر پایا نہیں جانے کا وہ در نایاب کڑھ کڑھ کے عبث جان کو مت کھویا کر
ہم سے تو بتوں کی وہ حیا کی باتیں وہ طرز کلام اس ادا کی باتیں دیکھیں قرآں میں فال غیروں کے لیے کیا ان سے کہیں یہ ہیں خدا کی باتیں
دل خون ہوا ضبط ہی کرتے کرتے ہم ہو ہی چکے دکھوں کو بھرتے بھرتے اے مایۂ زندگی ستم ہے نہ اگر بھر آنکھ تجھے دیکھیں نہ مرتے مرتے
آئی نہ کبھو رسم تلطف تم کو کرتے نہ سنا ہم پہ تاسف تم کو مرتے ہیں ہم اور منھ چھپاتے ہو تم ہم سے اب تک بھی ہے تکلف تم کو
مستی نہ کر اے میرؔ اگر ہے ادراک دامان بلند ابر نمط رکھ تو پاک ہے عاریتی جامۂ ہستی تیرا ہشیار کہ اس پر نہ پڑے گرد و خاک
راضی ٹک آپ کو رضا پر رکھیے مائل دل کو تنک قضا پر رکھیے بندوں سے تو کچھ کام نہ نکلا اے میرؔ سب کچھ موقوف اب خدا پر رکھیے
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق خاموش رہے تو ایک عالم ہووے
اندوہ کھپے عشق کے سارے دل میں اب درد لگا رہنے ہمارے دل میں کچھ حال نہیں رہا ہے دل میں اپنے کیا جانیے وہ کیا ہے تمھارے دل میں
کیا کیا ہیں سلوک بد فقط غم ہی نہیں پھر ہم سے جنوں میں ضعف سے دم ہی نہیں اک عمر چلی گئی جفاے شب و روز اب وہ تو نہیں شام و سحر ہم ہی نہیں