ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا
ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا ہر کوچے میں سو جوان رعنا دیکھا دلی تھی طلسمات کہ ہر جاگہ میرؔ ان آنکھوں سے ہم نے آہ کیا کیا دیکھا
اردو کے پہلے عظیم شاعر جنہیں ’ خدائے سخن ‘ کہا جاتا ہے
One of the greatest Urdu poets. Known as Khuda-e-Sukhan (God of Poetry)
ہر روز نیا ایک تماشا دیکھا ہر کوچے میں سو جوان رعنا دیکھا دلی تھی طلسمات کہ ہر جاگہ میرؔ ان آنکھوں سے ہم نے آہ کیا کیا دیکھا
دن فکر دہن میں اس کے جاتا ہے ہمیں کب آپ میں آکے کوئی پاتا ہے ہمیں ہرگز وہ کمر وہم میں گذری نہ کبھو رہ رہ کے یہی خیال آتا ہے ہمیں
اے میرؔ کہاں دل کو لگایا تونے شکل اپنی بگاڑ کر کڑھایا تونے جی میں نہ ترے حال نہ منھ پر کچھ رنگ اپنا یہ حال کیا بنایا تونے
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی رنجیدگی یک دگر نہایت ہوگی احوال وفا کا اپنے ہرگز مجھ سے مت پوچھ کہ کہنے میں شکایت ہوگی
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں روؤں تو زمیں سے آسماں تک روؤں جوں ابر جہاں جہاں بھرا ہوں غم سے شائستہ ہوں رونے کا جہاں تک روؤں
دل جن کے بجا ہیں ان کو آتی ہے خواب آرام خوش آتا ہے سہاتی ہے خواب میں غم زدہ کیا اپنے دنوں کو روؤں میری تو جہاں شب ہوئی جاتی ہے خواب
تاچند تلف میرؔ حیا سے ہوگا شائستۂ صدستم وفا سے ہوگا کر ترک ملاقات بتاں کعبے چل ان سے ہوگا سو اب خدا سے ہوگا
اوقات لڑکپن کے گئے غفلت میں ایام جوانی کے کٹے عشرت میں پیری میں جز افسوس کیا کیا جائے یک بارہ کمی ہی آگئی طاقت میں
اغلب ہے وہ غم کا بار کھینچے گا میرؔ منھ دیکھو کہ شکل یار کھینچے گا میرؔ بیٹھا ہے بنانے اس کی چشم مے گوں نقاش بہت خمار کھینچے گا میرؔ
کیا کوفت تھی دل کے لخت کوٹے نکلے ٹکڑے جو ہوئے جگر کے ٹوٹے نکلے چھاتی جو پھٹی ندان جلتے جلتے اس میں کے پھپھولے سارے پھوٹے نکلے