وائے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں
وائے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں جام مے پر گردش آوے اور مے خانہ خراب چوب حرفی بن الف بے میں نہیں پہچانتا ہوں میں ابجد خواں شناسائی کو مجھ سے کیا حساب
اردو کے پہلے عظیم شاعر جنہیں ’ خدائے سخن ‘ کہا جاتا ہے
One of the greatest Urdu poets. Known as Khuda-e-Sukhan (God of Poetry)
وائے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں جام مے پر گردش آوے اور مے خانہ خراب چوب حرفی بن الف بے میں نہیں پہچانتا ہوں میں ابجد خواں شناسائی کو مجھ سے کیا حساب
تسکین دل کے واسطے ہر کم بغل کے پاس انصاف کریے کب تئیں مخلص حقیر ہو یک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ فقیر ہو
حال بد میں مرے بتنگ آ کر آپ کو سب میں نیک نام کیا ہو گیا دل مرا تبرک جب درد نے قطعۂ پیام کیا
تاب و طاقت کو تو رخصت ہوئے مدت گزری پند گو یوں ہی نہ کر اب خلل اوقات کے بیچ زندگی کس کے بھروسے پہ محبت میں کروں ایک دل غم زدہ ہے سو بھی ہے آفات کے بیچ
ہو عاشقوں میں اس کے تو آؤ میرؔ صاحب گردن کو اپنی مو سے باریک تر کرو تم کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے سینہ سپر کریں ہم قطع نظر کرو تم
پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور بس یہی اعتبار رکھتے ہیں
گہ سرگزشت ان نے فرہاد کی نکالی مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے ایک آفت زماں ہے یہ میرؔ عشق پیشہ پردے میں سارے مطلب اپنے ادا کرے ہے
نہ سمجھا گیا ابر کیا دیکھ کر ہوا تھا مری چشم تر کی طرف ٹپکتا ہے پلکوں سے خوں متصل نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
کوہ و صحرا بھی کر نہ جائے باش آج تک کوئی بھی رہا ہے یاں ہے خبر شرط میرؔ سنتا ہے تجھ سے آگے یہ کچھ ہوا ہے یاں
یہی درد جدائی ہے جو اس شب تو آتا ہے جگر مژگان تر تک دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک