تھی جو وہ اک تمثیل ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا
تھی جو وہ اک تمثیل ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے اس کے بعد کئی سائے سے اس کو رخصت کرتے ہیں پھر دیواریں ڈھے جاتی ہیں دروازہ گر جاتا ہے
پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور
One of the most prominent modern Pakistani poets, popular for his unconventional ways.
تھی جو وہ اک تمثیل ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے اس کے بعد کئی سائے سے اس کو رخصت کرتے ہیں پھر دیواریں ڈھے جاتی ہیں دروازہ گر جاتا ہے
سر میں تکمیل کا تھا اک سودا ذات میں اپنی تھا ادھورا میں کیا کہوں تم سے کتنا نادم ہوں تم سے مل کر ہوا نہ پورا میں
میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے تیرے جانے کے بعد بھی میں نے تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے دور ہو کر تجھے تلاش کیا میں نے تیرا نشان گم کر کے اپنے اندر تجھے تلاش کیا
ہر طنز کیا جائے ہر اک طعنہ دیا جائے کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں نہ رہا جائے تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے
مری جب بھی نظر پڑتی ہے تجھ پر مری گلفام جان دل ربائی مرے جی میں یہ آتا ہے کہ مل دوں ترے گالوں پہ نیلی روشنائی
کیا بتاؤں کہ سہ رہا ہوں میں کرب خود اپنی بے وفائی کا کیا میں اس کو تری تلاش کہوں؟ دل میں اک شوق ہے جدائی کا
یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعاد ستم جز حریفان ستم کس کو پکارا جائے وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم حاکم وقت کو مسند سے اتارا جائے
جو رعنائی نگاہوں کے لیے فردوس جلوہ ہے لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی
پسینے سے مرے اب تو یہ رومال ہے نقد ناز الفت کا خزینہ یہ رومال اب مجھی کو بخش دیجے نہیں تو لائیے میرا پسینہ