جون ایلیا: آج وہ مر گیا جو تھا ہی نہیں
گِلہ ہے اک گلی سے شہرِ دل کی ؛ مَیں لڑتا پھر رہا ہوں شہر بھر سے
پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور
One of the most prominent modern Pakistani poets, popular for his unconventional ways.
گِلہ ہے اک گلی سے شہرِ دل کی ؛ مَیں لڑتا پھر رہا ہوں شہر بھر سے
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا سوچتی ہو تو سوچتی ہو کیا اب مری کوئی زندگی ہی نہیں اب بھی تم میری زندگی ہو کیا کیا ...
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے پرندے اڑ رہے ہیں شاخ جاں سے دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے زمانہ تھا وہ دل کی زندگی کا تری فرقت کے دن لاؤں کہاں سے تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش ابھی تو گھر بھی جانا ...
اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں سب میرے بغیر مطمئن ہوں میں سب کے بغیر جی رہا ہوں کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں گو اپنے ہزار نام رکھ لوں پر اپنے سوا میں اور کیا ہوں میں جرم کا اعتراف کر کے کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں میں اور فقط اسی کی ...
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں تم سر بہ سر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں ہے جو ہمارا ایک حساب اس حساب سے آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے ...
آج لب گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ تھے میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تو مرے بازوؤں میں ہے یعنی ...
چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو پھر بھی اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا ان کی لذت اور اذیت سے میں اپنا کوئی عہد نہیں توڑوں گا تیز نظر نا بیناؤں کی آبادی میں کیا میں اپنے دھیان کی یہ پونجی بھی گنوا دوں ہاں میرے خوابوں کو تمہاری صبحوں کی سرد اور سایہ گوں تعبیروں سے نفرت ہے ان صبحوں نے شام ...
دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر اڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف بستیوں کی طرف بنوں کی طرف اپنے گلوں کو لے کے چرواہے سرحدی بستیوں میں جا پہنچے دل ناکام میں کہاں جاؤں اجنبی شام میں کہاں جاؤں
یہ کتابوں کی صف بہ صف جلدیں کاغذوں کا فضول استعمال روشنائی کا شاندار اسراف سیدھے سیدھے سے کچھ سیہ دھبے جن کی توجیہہ آج تک نہ ہوئی چند خوش ذوق کم نصیبوں نے بسر اوقات کے لیے شاید یہ لکیریں بکھیر ڈالی ہیں کتنی ہی بے قصور نسلوں نے ان کو پڑھنے کے جرم میں تا عمر لے کے کشکول علم و ...
میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں شاید جان جاں شاید کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو ہے دل غمگیں بہت غمگیں کہ اب تم یاد دل دارانہ آتی ہو شمیم دور ماندہ ہو بہت رنجیدہ ہو مجھ سے مگر پھر بھی مشام جاں میں میرے آشتی مندانہ آتی ہو جدائی میں بلا کا التفات محرمانہ ہے قیامت ...
مجھے تم اپنی بانہوں میں جکڑ لو اور میں تم کو کسی بھی دل کشا جذبے سے یکسر نا شناسانہ نشاط رنگ کی سرشاریٔ حالت سے بیگانہ مجھے تم اپنی بانہوں میں جکڑ لو اور میں تم کو فسوں کارہ نگارا نو بہارا آرزو آرا بھلا لمحوں کا میری اور تمہاری خواب پرور آرزو مندی کی سرشاری سے کیا رشتہ ہماری ...
تھی جو وہ اک تمثیل ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے اس کے بعد کئی سائے سے اس کو رخصت کرتے ہیں پھر دیواریں ڈھے جاتی ہیں دروازہ گر جاتا ہے
سر میں تکمیل کا تھا اک سودا ذات میں اپنی تھا ادھورا میں کیا کہوں تم سے کتنا نادم ہوں تم سے مل کر ہوا نہ پورا میں
میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے تیرے جانے کے بعد بھی میں نے تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے دور ہو کر تجھے تلاش کیا میں نے تیرا نشان گم کر کے اپنے اندر تجھے تلاش کیا
ہر طنز کیا جائے ہر اک طعنہ دیا جائے کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں نہ رہا جائے تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے