Iftikhar Arif

افتخار عارف

پاکستان کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں، اپنی تہذیبی رومانیت کے لیے معروف

One of the most prominent Pakistani poets, famous for his cultural romanticism.

افتخار عارف کی نظم

    پس نوشت

    خداوند مجھے توفیق دے میں ایسے زندہ لفظ لکھوں جو نہ لکھوں میں تو دنیا بانجھ ہو جائے مگر پھر سوچتا ہوں اتنے زندہ لفظ لکھے جا چکے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں میں بھی لکھ لوں گا تو کیا ہو جائے گا کیا یہ پرانا آدمی پھر سے نیا ہو جائے گا یا دوسرا ہو جائے گا

    مزید پڑھیے

    مکالمہ

    ''ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے کوئی تو ہوگا جو خلعت انتساب پہنا کے وقت کی رو سے کھیلتا ہے کوئی تو ہوگا حجاب کو رمز نور کہتا ہے اور پرتو سے کھیلتا ہے کوئی تو ہوگا'' ''کوئی نہیں ہے کہیں نہیں ہے یہ خوش یقینوں کے خوش گمانوں کے واہمے ہیں جو ہر سوالی سے بیعت اعتبار لیتے ...

    مزید پڑھیے

    بدشگونی

    عجب گھڑی تھی کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا نظر میں اک اور ہی جہاں تھا نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں نئے نئے دائروں کی گردش میں اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں صلہ جزا خوف ناامیدی امید امکان بے ...

    مزید پڑھیے

    ایک خواب کی دوری پر

    اک خواہش تھی کبھی ایسا ہو کبھی ایسا ہو کہ اندھیرے میں (جب دل وحشت کرتا ہو بہت جب غم شدت کرتا ہو بہت) کوئی تیر چلے کوئی تیر چلے جو ترازو ہو مرے سینے میں اک خواہش تھی کبھی ایسا ہو کبھی ایسا ہو کہ اندھیرے میں (جب نیندیں کم ہوتی ہوں بہت جب آنکھیں نم ہوتی ہوں بہت) سر آئینہ کوئی شمع ...

    مزید پڑھیے

    بیلنس شیٹ

    کسے خبر تھی ایک مسافر مستقبل زنجیر کرے گا اور سفر کے سب آداب بدل جائیں گے کسے یقیں تھا وقت کی رو جس دن مٹھی میں بند ہو گئی ساری آنکھیں سارے خواب بدل جائیں گے ہمیں خبر تھی ہمیں یقیں تھا تبھی تو ہم نے توڑ دیا تھا رشتۂ شہرت عام تبھی تو ہم نے چھوڑ دیا تھا شہر نمود و نام لیکن اب مرے اندر ...

    مزید پڑھیے

    آخری آدمی کا رجز

    مصاجبین شاہ مطمئن ہوئے کہ سرفراز سر بریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں اور ہر طرف سکون ہے سکون ہی سکون ہے فغان خلق اہل طائفہ کی نذر ہو گئی متاع صبر وحشت دعا کی نذر ہو گئی امید اجر بے یقینیٔ جزا کی نذر ہو گئی نہ اعتبار حرف ہے نہ آبروئے خون ہے سکون ہی سکون ہے مصاحبین شاہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دیر پہلے نیند سے

    میں جن کو چھوڑ آیا تھا شناسائی کی بستی کے وہ سارے راستے آواز دیتے ہیں نہیں معلوم اب کس واسطے آواز دیتے ہیں لہو میں خاک اڑتی ہے بدن خواہش بہ خواہش ڈھ رہا ہے اور نفس کی آمد و شد دل کی نا ہمواریوں پر بین کرتی ہے وہ سارے خواب ایک اک کر کے رخصت ہو چکے ہیں جن سے آنکھیں جاگتی تھیں اور ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی ایک نظم

    مری زندگی میں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے ایک خواب ہے اور تم ہو یہ کتاب و خواب کے درمیان جو منزلیں ہیں میں چاہتا تھا تمھارے ساتھ بسر کروں یہی کل اثاثۂ زندگی ہے اسی کو زاد سفر کروں کسی اور سمت نظر کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو مرے دل کے جادۂ خوش خبر پہ بجز تمھارے کبھی کسی کا گزر نہ ...

    مزید پڑھیے

    بدن دریدہ روحوں کے نام ایک نظم

    خوابوں سے تہی بے نور آنکھیں ہر شام نئے منظر چاہیں بے چین بدن پیاسی روحیں ہر آن نئے پیکر چاہیں بے باک لہو ان دیکھے سپنوں کی خاطر جانے ان جانے رستوں پر کچھ نقش بنانا چاہتا ہے بنجر پامال زمینوں میں کچھ پھول کھلانا چاہتا ہے یوں نقش کہاں بن پاتے ہیں یوں پھول کہاں کھلنے والے ان بدن ...

    مزید پڑھیے

    ہوائیں ان پڑھ ہیں

    اب کے بار پھر موج بہار نے فرش سبز پر ساعت مہر میں ہار سنگھار سے ہم دونوں کے نام لکھے ہیں اور دعا مانگی ہے کہ ''اے راتوں کو جگنو دینے والے! سوکھی ہوئی مٹی کو خوشبو دینے والے! شکر گزار آنکھوں کو آنسو دینے والے! ان دونوں کا ساتھ نہ چھوٹے'' اور سنا یہ ہے کہ ہوائیں اب کے بار بھی تیز بہت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5