Iftikhar Arif

افتخار عارف

پاکستان کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں، اپنی تہذیبی رومانیت کے لیے معروف

One of the most prominent Pakistani poets, famous for his cultural romanticism.

افتخار عارف کی نظم

    ایک کہانی بہت پرانی

    عجب دن تھے عجب نامہرباں دن تھے بہت نامہرباں دن تھے زمانے مجھ سے کہتے تھے زمینیں مجھ سے کہتی تھیں میں اک بے بس قبیلے کا بہت تنہا مسافر ہوں وہ بے منزل مسافر ہوں جسے اک گھر نہیں ملتا میں اس رستے کا راہی ہوں جسے رہبر نہیں ملتا مگر کوئی مسلسل دل پہ اک دستک دیے جاتا تھا کہتا تھا ...

    مزید پڑھیے

    ایک تھا راجہ چھوٹا سا

    علی افتخارؔ کی ماں سے میں نے بتا دیا ہے کہ اپنے بیٹے کو تتلیوں کے قریب جانے سے روکئے اسے روکئے کہ پڑوسیوں کے گھروں میں جھولے پڑے ہوئے ہیں تو اس سے کیا اسے کیا پڑی کہ کبوتروں کو بتائے کیسے ہوائیں اس کی پتنگ چھین کے لے گئیں علی افتخارؔ کی ماں سے میں نے بتا دیا ہے کہ اپنے بیٹے کو ...

    مزید پڑھیے

    کوچ

    جس روز ہمارا کوچ ہوگا پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی شیریں سخنوں کے حرف دشنام بے مہر زبانیں بند ہوں گی پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا ہمواریٔ ہر نفس سلامت دل پر کوئی داغ تک نہ ہوگا پامالیٔ خواب کی کہانی کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا معبود اس آخری سفر میں تنہائی کو ...

    مزید پڑھیے

    التجا

    مرے شکاریو امان چاہتا ہوں میں بس اب سلامتیٔ جاں کی حد تلک اڑان چاہتا ہوں میں مرے شکاریو امان چاہتا ہوں میں میں ایک بار پہلے بھی ہرے بھرے دنوں کی آرزو میں زیر دام آ چکا ہوں مجھ کو بخش دو میں اس سے پہلے بھی تو سایۂ شجر کی جستجو میں اتنے زخم کھا چکا ہوں مجھ کو بخش دو مرے شکاریو امان ...

    مزید پڑھیے

    انتباہ

    ہنڈولا جھولنے والے زمیں سے کٹ کے اونچا جھولنے کی چاہ رکھتے ہیں تو پھر جھولیں مگر یہ یاد رکھیں زمیں سے کٹ کے اونچا جھولنے والے فضاؤں میں معلق ہی رہیں گے جھلانے والے کے رحم و کرم پر دائرہ در دائرہ گردش کریں گے اور زمیں پر لوٹ کر بھی بے زمینی کے الم سہتے رہیں گے ہنڈولا جھولنے ...

    مزید پڑھیے

    ایک سوال

    میرے آبا و اجداد نے حرمت آدمی کے لیے تا ابد روشنی کے لیے کلمۂ حق کہا مقتلوں قید خانوں صلیبوں میں بہتا لہو ان کے ہونے کا اعلان کرتا رہا وہ لہو حرمت آدمی کی ضمانت بنا تا ابد روشنی کی علامت بنا اور میں پا برہنہ سر کوچۂ احتیاج رزق کی مصلحت کا اسیر آدمی سوچتا رہ گیا جسم میں میرے ان کا ...

    مزید پڑھیے

    صحرا میں ایک شام

    دشت بے نخیل میں باد بے لحاظ نے ایسی خاک اڑائی ہے کچھ بھی سوجھتا نہیں حوصلوں کا سائبان راستوں کے درمیان کس طرح اجڑ گیا کون کب بچھڑ گیا کوئی پوچھتا نہیں فصل اعتبار میں آتش غبار سے خیمہ دعا جلا دامن وفا جلا کس بری طرح جلا پھر بھی زندگی کا ساتھ ہے کہ چھوٹتا نہیں کچھ بھی سوجھتا ...

    مزید پڑھیے

    دعا

    یہ جبر ماہ و سال میں گھری ہوئی زمیں مری گواہ ہے نشاط کی ابد کنار منزلوں میں ایک عمر سے میں ان کریم اور جمیل ساعتوں کا منتظر ہوں جن کی بازگشت سے مرے وجود کی صداقتوں کا انکشاف ہو خدا کرے بشارتیں سنانے والے خوش کلام طائروں کی ٹولیاں افق سے شاخ گل تلک علامت وصال کی لکیریں کھینچ ...

    مزید پڑھیے

    شہر آشوب

    اے شہر رسن بستہ کیا یہ تری منزل ہے کیا یہ ترا حاصل ہے یہ کون سا منظر ہے کچھ بھی تو نہیں کھلتا کیا تیرا مقدر ہے تقدیر فصیل شہر کتبہ ہے کہ گلدستہ اے شہر رسن بستہ اب کوئی بھی خوابوں پر ایمان نہیں رکھتا کس راہ پہ جانا ہے کس راہ نہیں جانا پہچان نہیں رکھتا شاعر ہو کہ صورت گر باغوں کی ...

    مزید پڑھیے

    اور ہوا چپ رہی

    شاخ زیتون پر کم سخن فاختاؤں کے اتنے بسیرے اجاڑے گئے اور ہوا چپ رہی بے کراں آسمانوں کی پہنائیاں بے نشیمن شکستہ پروں کی تگ و تاز پر بین کرتی رہیں اور ہوا چپ رہی زرد پرچم اڑاتا ہوا لشکر بے اماں گل زمینوں کو پامال کرتا رہا اور ہوا چپ رہی آرزو مند آنکھیں بشارت طلب دل دعاؤں کو اٹھے ہوئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5