وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب جس کی ڈھالیں چمک ...