Iftikhar Arif

افتخار عارف

پاکستان کے اہم ترین شاعروں میں نمایاں، اپنی تہذیبی رومانیت کے لیے معروف

One of the most prominent Pakistani poets, famous for his cultural romanticism.

افتخار عارف کی غزل

    یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

    یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا میں جس میں رہ رہا تھا وہی گھر مرا نہ تھا میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا موج ہوائے شہر مقدر جواب دے دریا مرے نہ تھے کہ سمندر مرا نہ تھا پھر بھی تو سنگسار کیا جا رہا ہوں میں کہتے ہیں نام تک سر محضر مرا نہ ...

    مزید پڑھیے

    عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی

    عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی نئے سفر کے لیے راستہ نہ مانگے کوئی بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی تمام شہر مکرم بس ایک مجرم میں سو میرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی کوئی تو شہر تذبذب کے ساکنوں سے کہے نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں

    ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں مبادا مندمل زخموں کی صورت بھول ہی جائیں ابھی کچھ دن یہ گھر برباد رکھنا چاہتے ہیں بہت رونق تھی ان کے دم قدم سے شہر جاں میں وہی رونق ہم ان کے بعد رکھنا چاہتے ہیں بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت وفا پر ...

    مزید پڑھیے

    سخن حق کو فضیلت نہیں ملنے والی

    سخن حق کو فضیلت نہیں ملنے والی صبر پر داد شجاعت نہیں ملنے والی وقت معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل ڈوبا جاتا ہے کہ مہلت نہیں ملنے والی زندگی نذر گزاری تو ملی چادر خاک اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی ہوس ...

    مزید پڑھیے

    انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے

    انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں وگرنہ صورت خاشاک در بہ در ...

    مزید پڑھیے

    امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

    امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں اب اپنے حجرۂ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر دست بساط عافیت ...

    مزید پڑھیے

    اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے

    اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے دل کے معبود جبینوں کے خدائی سے الگ ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے اجرت عشق وفا ہے تو ہم ایسے مزدور کچھ بھی کر لیں گے یہ محنت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ قرض کج کلہی کب تلک ادا ہوگا

    یہ قرض کج کلہی کب تلک ادا ہوگا تباہ ہو تو گئے ہیں اب اور کیا ہوگا یہاں تک آئی ہے بپھرے ہوئے لہو کی صدا ہمارے شہر میں کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا غبار کوچۂ وعدہ بکھرتا جاتا ہے اب آگے اپنے بکھرنے کا سلسلہ ہوگا صدا لگائی تو پرسان حال کوئی نہ تھا گمان تھا کہ ہر اک شخص ہم نوا ہوگا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گئے ہم

    ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گئے ہم پھر اس کے بعد نظر سے گرا دئے گئے ہم عزیز تھے ہمیں نو واردان کوچۂ عشق سو پیچھے ہٹتے گئے راستہ دئے گئے ہم شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور مثال مال غنیمت لٹا دئے گئے ہم زمین فرش گل و لالہ سے سجائی گئی پھر اس زمیں کی امانت بنا دئے گئے ہم دعائیں ...

    مزید پڑھیے

    شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے

    شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس محور گردش سفاک سے خوف آتا ہے یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے آگ جب آگ سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5