جنوں کا رنگ بھی ہو شعلۂ نمو کا بھی ہو
جنوں کا رنگ بھی ہو شعلۂ نمو کا بھی ہو سکوت شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو وہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی کسے خبر وہی تارا ...