Habib Jalib

حبیب جالب

مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور

Popular poet from Pakistan, known for his anti-establishment poetry, having mass following.

حبیب جالب کی نظم

    مولانا

    بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا خدارا شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں یہ لگتی ہے مرے سینے پہ بن کر تیر مولانا نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے یہی ہے جرم میرا اور یہی تقصیر مولانا حقیقت کیا ہے یہ تو آپ جانیں یا خدا جانے سنا ہے جمی ...

    مزید پڑھیے

    ضابطہ

    یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جائے یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جائے بیاں کروں نہ کبھی اپنے دل کی حالت کو نہ لاؤں لب پہ کبھی شکوہ و شکایت ...

    مزید پڑھیے

    14-اگست

    کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا سر محنت کشاں پر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی جنگ رہے گی

    جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرے ہیں اپنی جنگ رہے گی اہل ہوس نے جب تک اپنے دام بکھیرے ہیں اپنی جنگ رہے گی مغرب کے چہرے پر یارو اپنے خون کی لالی ہے لیکن اب اس کے سورج کی ناؤ ڈوبنے والی ہے مشرق کی تقدیر میں جب تک غم کے اندھیرے ہیں اپنی جنگ رہے گی ظلم کہیں بھی ہو ہم اس کا سر خم کرتے ...

    مزید پڑھیے

    مشیر

    میں نے اس سے یہ کہا یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں ان کی فکر سو گئی ہر امید کی کرن ظلمتوں میں کھو گئی یہ خبر درست ہے ان کی موت ہو گئی بے شعور لوگ ہیں زندگی کا روگ ہیں اور تیرے پاس ہے ان کے درد کی دوا میں نے اس سے یہ کہا تو خدا کا نور ہے عقل ہے شعور ہے قوم تیرے ساتھ ہے تیرے ہی وجود ...

    مزید پڑھیے

    عورت

    بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا دیوار ہے وہ اب تک جس میں تجھے چنوایا دیوار کو آ توڑیں بازار کو آ ڈھائیں انصاف کی خاطر ہم سڑکوں پہ نکل آئیں مجبور کے سر پر ہے شاہی کا وہی سایا بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا تقدیر کے قدموں پر سر رکھ کے پڑے رہنا تائید ستم گر ہے چپ رہ کے ستم ...

    مزید پڑھیے

    اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو

    جینے کا حق سامراج نے چھین لیا اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو سامراج کے دوست ہمارے دشمن ہیں انہی سے آنسو آہیں آنگن آنگن ہیں انہی سے قتل عام ہوا آشاؤں کا انہی سے ویراں امیدوں کا گلشن ہے بھوک ننگ سب دین انہی کی ہے لوگو بھول کے بھی ...

    مزید پڑھیے

    تیز چلو

    یہ کہہ رہا ہے دل بے قرار تیز چلو بہت اداس ہیں زنجیر و دار تیز چلو جو تھک گئے ہیں انہیں گرد راہ رہنے دو کسی کا اب نہ کرو انتظار تیز چلو خزاں کی شام کہاں تک رہے گی سایہ فگن بہت قریب ہے صبح بہار تیز چلو تمہی سے خوف زدہ ہیں زمین و زر والے تمہی ہو چشم ستم گر پہ بار تیز چلو کرو خلوص و محبت ...

    مزید پڑھیے

    مستقبل

    تیرے لئے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں میری راہ میں مصلحتوں کے پھول بھی ہیں تیری خاطر کانٹے چنتا رہوں گا تو آئے گا اسی آس پہ جھوم رہا ہے دل دیکھ اے مستقبل اک اک کر کے سارے ساتھی چھوڑ گئے مجھ سے میرے رہبر بھی منہ موڑ گئے سوچتا ہوں بے کار گلہ ہے غیروں ...

    مزید پڑھیے

    عہد سزا

    یہ ایک عہد سزا ہے جزا کی بات نہ کر دعا سے ہاتھ اٹھا رکھ دوا کی بات نہ کر خدا کے نام پہ ظالم نہیں یہ ظلم روا مجھے جو چاہے سزا دے خدا کی بات نہ کر حیات اب تو انہیں محبسوں میں گزرے گی ستم گروں سے کوئی التجا کی بات نہ کر انہی کے ہاتھ میں پتھر ہیں جن کو پیار کیا یہ دیکھ حشر ہمارا وفا کی بات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5