Habib Jalib

حبیب جالب

مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور

Popular poet from Pakistan, known for his anti-establishment poetry, having mass following.

حبیب جالب کی غزل

    اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

    اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں اب تذکرۂ خندۂ گل بار ہے جی پر جاں وقف غم گریہ شبنم ہے مری جاں رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب تصویر پریشانئ عالم ہے مری جاں یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں ہم ...

    مزید پڑھیے

    خوب آزادئ صحافت ہے

    خوب آزادئ صحافت ہے نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار سب کو معلوم یہ حقیقت ہے خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں کس کی عزت یہاں سلامت ہے کبھی جمہوریت یہاں آئے یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے

    مزید پڑھیے

    کون بتائے کون سجھائے کون سے دیس سدھار گئے

    کون بتائے کون سجھائے کون سے دیس سدھار گئے ان کا رستہ تکتے تکتے نین ہمارے ہار گئے کانٹوں کے دکھ سہنے میں تسکین بھی تھی آرام بھی تھا ہنسنے والے بھولے بھالے پھول چمن کے مار گئے ایک لگن کی بات ہے جیون ایک لگن ہی جیون ہے پوچھ نہ کیا کھویا کیا پایا کیا جیتے کیا ہار گئے آنے والی برکھا ...

    مزید پڑھیے

    فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں

    فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں ہم سے جس وقت نے وہ شاہ سخن چھین لیا ہم کو وہ وقت الم بھولنے والا ہے کہیں ترے اشک اور بھی چمکائیں گی یادیں اس کی ہم کو وہ دیدۂ نم بھولنے والا ہے کہیں کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست جو کیا اس نے رقم ...

    مزید پڑھیے

    ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم

    ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم دل لے کے سر عرصۂ غم آ تو گئے ہم اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا روداد وفا دار پہ دہرا تو گئے ہم کہتے تھے جو اب کوئی نہیں جاں سے گزرتا لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم جاں اپنی گنوا کر کبھی گھر اپنا جلا کر دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ...

    مزید پڑھیے

    یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے

    یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے ہوتا ہے شاد کام یہاں کون با ضمیر ناشاد ہم ہوئے تو بہت شاد ہم ہوئے پرویز کے جلال سے ٹکرائے ہم بھی ہیں یہ اور بات ہے کہ نہ فرہاد ہم ہوئے کچھ ایسے بھا گئے ہمیں دنیا کے درد و غم کوئے بتاں میں بھولی ہوئی یاد ہم ...

    مزید پڑھیے

    بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو

    بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو ہوئے نہ ایک تو منزل نہ بن سکے گا لہو ہو کس گھمنڈ میں اے لخت لخت دیدہ ورو تمہیں بھی قاتل محنت کشاں کہے گا لہو اسی طرح سے اگر تم انا پرست رہے خود اپنا راہنما آپ ہی بنے گا لہو سنو تمہارے گریبان بھی نہیں محفوظ ڈرو تمہارا بھی اک دن حساب لے گا ...

    مزید پڑھیے

    کم پرانا بہت نیا تھا فراق

    کم پرانا بہت نیا تھا فراق اک عجب رمز آشنا تھا فراق دور وہ کب ہوا نگاہوں سے دھڑکنوں میں بسا ہوا ہے فراق شام غم کے سلگتے صحرا میں اک امنڈتی ہوئی گھٹا تھا فراق امن تھا پیار تھا محبت تھا رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق فاصلے نفرتوں کے مٹ جائیں پیار ہی پیار سوچتا تھا فراق ہم سے رنج و ...

    مزید پڑھیے

    نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں

    نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے ہزار غنچہ و گل ہیں صبا کے رستے میں خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں کہیں سلاسل تسبیح اور کہیں زنار بچھے ہیں دام بہت مدعا کے رستے ...

    مزید پڑھیے

    بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ

    بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون ہمیں تو یوں ہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں اپنے تمغے ہیں ملی ہے ایسی داد وفا کی کسے سڑک کے بیچ

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5