ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ دھن پیدا
ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ دھن پیدا ہوتا ہے بڑے جتن سے یہ گن پیدا میزان نشاط و غم میں صدیوں تل کر ہوتا ہے حیات میں توازن پیدا
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز
One of the most influential Pre-modern poets who paved the way for the modern Urdu ghazal. Known for his perceptive critical comments. Recipient of Gyanpeeth award.
ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ دھن پیدا ہوتا ہے بڑے جتن سے یہ گن پیدا میزان نشاط و غم میں صدیوں تل کر ہوتا ہے حیات میں توازن پیدا
جب چاند کی وادیوں سے نغمے برسیں آکاش کی گھاٹیوں میں ساغر اچھلیں امرت میں دھلی ہوئی رات اے کاش ترے پائے رنگیں کی چاپ ایسے میں سنیں
مہتاب میں سرخ انار جیسے چھوٹے یا قوس قزح لچک کے جیسے ٹوٹے وہ قد ہے کہ بھیرویں سنائے جب صبح گل زار عشق سے نرم کونپل پھوٹے
کہتی ہیں یہی تیری نگاہیں اے دوست نکلیں نئی زندگی کی راہیں اے دوست کیوں حسن و محبت سے نہ اونچے اٹھ کے دونوں اک دوسرے کو چاہیں اے دوست
غنچے کو نسیم گدگدائے جیسے مطرب کوئی ساز چھیڑ جائے جیسے یوں پھوٹ رہی ہے مسکراہٹ کی کرن مندر میں چراغ جھلملائے جیسے
ہر جلوہ سے اک درس نمو لیتا ہوں لبریز کئی جام و سبو لیتا ہوں پڑتی ہے جب آنکھ تجھ پر اے جان بہار سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں
اے روپ کی لکشمی یہ جلووں کا راگ یہ جادوئے کام روپ یہ حسن کی آگ خیر و برکت جہان میں تیرے دم سے تیری کومل ہنسی محبت کا سہاگ
سر تا بہ قدم رخ نگاریں ہے کہ تن ہیں عضو حسیں کہ بول اٹھنے کو دہن یہ مستی و کیف یہ جماہی یہ جھپک اک ادھ کھلی نرگس خماریں ہے بدن
پریمی کو بخار اٹھ نہیں سکتی ہے پلک بیٹھی ہے سرہانے ماند مکھڑے کی دمک جلتی ہوئی پیشانی پہ رکھ دیتی ہے ہاتھ پڑ جاتی ہے بیمار کے دل میں ٹھنڈک
مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں رہ جانا وہ مسکرا کے تیرا کل رات جیسے کچھ جھلملا کے تارے چھپ جائیں