ہر سانس میں گل زار سے کھل جاتے تھے
ہر سانس میں گل زار سے کھل جاتے تھے ہر لمحہ میں جنت کی ہوا کھاتے تھے کیا تجھ کو محبت کے وہ ایام ہیں یاد جب پردۂ شب بجتے تھے دن گاتے تھے
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز
One of the most influential Pre-modern poets who paved the way for the modern Urdu ghazal. Known for his perceptive critical comments. Recipient of Gyanpeeth award.
ہر سانس میں گل زار سے کھل جاتے تھے ہر لمحہ میں جنت کی ہوا کھاتے تھے کیا تجھ کو محبت کے وہ ایام ہیں یاد جب پردۂ شب بجتے تھے دن گاتے تھے
جو رنگ اڑا وہ رنگ آخر لایا درد و غم و سوز و ساز کیا کیا پایا سب جینے کا مزہ ملا محبت کر کے صد شکر فراق کو دکھانا آیا
چڑھتی ہوئی ندی ہے کہ لہراتی ہے پگھلی ہوئی بجلی ہے کہ بل کھاتی ہے پہلو میں لہک کے بھینچ لیتی ہے وہ جب کیا جانے کہاں بہا لے جاتی ہے
آنکھوں میں وہ رس جو پتی پتی دھو جائے زلفوں کے فسوں سے مار سنبل سو جائے جس وقت تو سیر گلستاں کرتا ہو ہر پھول کا رنگ اور گہرا ہو جائے
امرت وہ ہلاہل کو بنا دیتی ہے غصے کی نظر پھول کھلا دیتی ہے ماں لاڈلی اولاد کو جیسے تاڑے کس پیار سے پریمی کو سزا دیتی ہے
یہ شعلۂ حسن جیسے بجتا ہو ستار ہر خط بدن کی لو میں مدھم جھنکار رنگین نگاہ سے کھل اٹھتے ہیں چمن رس ہونٹوں کا پی کے جھوم اٹھتی ہے بہار
ثانی نہیں تیرا نہ کوئی تیری مثال کس خواب کی تعبیر ہے یہ شان جمال سینے میں یکسوئی کے پلتے پلتے جیسے صورت پکڑ لے یزداں کا خیال
زلفوں سے فضاؤں میں اداہٹ کا سماں مکھڑا ہے کہ آگ میں تراوٹ کا سماں یہ سوز و گداز قد رعنا! جیسے ہیرے کے منار میں گھلاوٹ کا سماں
کومل پد گامنی کی آہٹ تو سنو گاتے قدموں کی گنگناہٹ تو سنو ساون لہرا ہے مد میں ڈوبا ہوا روپ رس کی بوندوں کی جھمجھماہٹ تو سنو
رکھشا بندھن کی صبح رس کی پتلی چھائی ہے گھٹا گگن پہ ہلکی ہلکی بجلی کی طرح لچک رہے ہیں لچھے بھائی کے ہے باندھی چمکتی راکھی