جس طرح رگوں میں خون صالح ہو رواں
جس طرح رگوں میں خون صالح ہو رواں جس طرح حیات کا ہے مرکز رگ جاں جس طرح جدا نہیں وجود و موجود کچھ اس سے زیادہ قرب اے جان جہاں
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز
One of the most influential Pre-modern poets who paved the way for the modern Urdu ghazal. Known for his perceptive critical comments. Recipient of Gyanpeeth award.
جس طرح رگوں میں خون صالح ہو رواں جس طرح حیات کا ہے مرکز رگ جاں جس طرح جدا نہیں وجود و موجود کچھ اس سے زیادہ قرب اے جان جہاں
وہ چہرہ ستا ہوا وہ حسن بیمار بے چینی کی روح کو بھی آتا تھا پیار دیکھا ہے کرب کے بھی عالم میں تجھے ہوتا تھا سکون لاکھ جانوں سے نثار
قامت ہے کہ انگڑائیاں لیتی سرگم ہو رقص میں جیسے رنگ و بو کا عالم جگمگ جگمگ ہے شبنمستان ارم یا قوس قزح لچک رہی ہے پیہم
آ جا کہ کھڑی ہے شام پردا گھیرے مدت ہوئی جب ہوئے تھے درشن تیرے مغرب سے سنہری گرد اٹھی سوئے قاف سورج نے اگنی رتھ کے گھوڑے پھیرے
قطرے عرق جسم کے موتی کی لڑی ہے پیکر ناز کہ پھولوں کی چھڑی گردش میں نگاہ ہے کہ بٹتی ہے حیات جنت بھی ہے آج امیدواروں میں کھڑی
گل ہیں کہ رخ گرم کے ہیں انگارے بالک کے نین سے ٹوٹتے ہیں تارے رحمت کا فرشتہ بن کے دیتی ہے سزا ماں ہی کو پکارے اور ماں ہی مارے
گیسو بکھرے ہوئے گھٹائیں بے خود آنچل لٹکا ہوا ہوائیں بے خود پر کیف شباب سے ادائیں بے خود گاتی ہوئی سانس سے فضائیں بے خود
صحرا میں زماں مکاں کے کھو جاتی ہیں صدیوں بیدار رہ کے سو جاتی ہیں اکثر سوچا کیا ہوں خلوت میں فراقؔ تہذیبیں کیوں غروب ہو جاتی ہیں
پاتے جانا ہے اور نہ کھوتے جانا ہنستے جانا ہے اور نہ روتے جانا اول اور آخری پیام تہذیب انسان کو انسان ہے ہوتے جانا
افسردہ فضا پہ جیسے چھایا ہو ہراس دنیا کو کوئی ہوا بھی آتی نہیں راس ڈوبی جاتی ہو جیسے نبض کونین جس بات پہ حسن آج اتنا ہے اداس