فکر سود و زیاں تو چھوٹے گی
فکر سود و زیاں تو چھوٹے گی منت این و آں تو چھوٹے گی خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے
One of the most celebrated and popular poets. Faced political repression for his revolutionary views.
فکر سود و زیاں تو چھوٹے گی منت این و آں تو چھوٹے گی خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
مے خانوں کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے دلدارئ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ اب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے
جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی اے اہل مصر وضع تکلف تو دیکھیے انصاف ہے کہ حکم عقوبت سے پیشتر اک بار سوئے دامن یوسف تو دیکھیے
دیدۂ تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے کاسۂ چشم میں خوں ناب جگر لے کے چلو اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب ان کے حضور دست و کشکول نہیں کاسۂ سر لے کے چلو
ترا جمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساط محفل میں کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشست درد کہاں
ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجل عبائے شیخ و قبائے امیر و تاج شہی ہمیں سے سنت منصور و قیس زندہ ہے ہمیں سے باقی ہے گل دامنی و کج کلہی
رفیق راہ تھی منزل ہر اک تلاش کے بعد چھٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی ملول تھا دل آئینہ ہر خراش کے بعد جو پاش پاش ہوا اک خراش بھی نہ رہی
کھلے جو ایک دریچے میں آج حسن کے پھول تو صبح جھوم کے گل زار ہو گئی یک سر جہاں کہیں بھی گرا نور ان نگاہوں سے ہر ایک چیز طرح دار ہو گئی یک سر
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے رہی فراغت ہجراں تو ہو رہے گا طے تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے