Faiz Ahmad Faiz

فیض احمد فیض

سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے

One of the most celebrated and popular poets. Faced political repression for his revolutionary views.

فیض احمد فیض کی نظم

    آج شب کوئی نہیں ہے

    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی خواب در خواب محلات کے در وا ہیں کئی اور مکیں کوئی نہیں ہے، آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت کوئی امید، کوئی آس مسافر صورت کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں کوئی نہیں ہے آج شب دل ...

    مزید پڑھیے

    جو میرا تمہارا رشتہ ہے

    میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں لکھا گیا ہے بہت لطف وصل و درد فراق مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہم دم مہ و سال اس عشق خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے ''گزر گیا ہے زمانہ گلے ...

    مزید پڑھیے

    ایک رہگزر پر

    وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں ہزار فتنے تہ پائے ناز خاک نشیں ہر اک نگاہ خمار شباب سے رنگیں شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں وقار جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں ادائے لغزش پا پر قیامتیں قرباں بیاض رخ پہ سحر کی صباحتیں قرباں سیاہ زلفوں میں ...

    مزید پڑھیے

    تم اپنی کرنی کر گزرو

    اب کیوں اس دن کا ذکر کرو جب دل ٹکڑے ہو جائے گا اور سارے غم مٹ جائیں گے جو کچھ پایا کھو جائے گا جو مل نہ سکا وہ پائیں گے یہ دن تو وہی پہلا دن ہے جو پہلا دن تھا چاہت کا ہم جس کی تمنا کرتے رہے اور جس سے ہر دم ڈرتے رہے یہ دن تو کئی بار آیا سو بار بسے اور اجڑ گئے سو بار لٹے اور بھر پایا اب ...

    مزید پڑھیے

    بہار آئی

    بہار آئی تو جیسے یک بار لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے وہ خواب سارے شباب سارے جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے نکھر گئے ہیں گلاب سارے جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں جو تیرے عشاق کا لہو ہیں ابل پڑے ہیں عذاب سارے ملال احوال دوستاں بھی خمار آغوش مہ وشاں بھی غبار خاطر کے باب ...

    مزید پڑھیے

    موضوع سخن

    گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات ان کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں ٹمٹماتا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    آخری خط

    وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں اور حد سے گزر جائے گا اندوہ نہانی تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی شاید مری الفت کو بہت یاد کرو گی اپنے دل معصوم کو ناشاد کرو گی آؤگی ...

    مزید پڑھیے

    تم ہی کہو کیا کرنا ہے

    جب دکھ کی ندیا میں ہم نے جیون کی ناؤ ڈالی تھی تھا کتنا کس بل بانہوں میں لوہو میں کتنی لالی تھی یوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے اور ناؤ پورم پار لگی ایسا نہ ہوا، ہر دھارے میں کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں کچھ مانجھی تھے انجان بہت کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں اب جو بھی چاہو چھان کرو اب جتنے ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

    آج پھر درد و غم کے دھاگے میں ہم پرو کر ترے خیال کے پھول ترک الفت کے دشت سے چن کر آشنائی کے ماہ و سال کے پھول تیری دہلیز پر سجا آئے پھر تری یاد پر چڑھا آئے باندھ کر آرزو کے پلے میں ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

    مزید پڑھیے

    واسوخت

    سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی ہاں ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے کیوں داد غم ہمیں نے طلب کی برا کیا ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5