ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے
ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے کس قدر ہوگا یہاں مہر و وفا کا ماتم ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار سخن ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں مر جائیں ...