Faiz Ahmad Faiz

فیض احمد فیض

سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے

One of the most celebrated and popular poets. Faced political repression for his revolutionary views.

فیض احمد فیض کی غزل

    حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے

    حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے سر پر ہیں خداوند سر عرش خدا ہے کب تک اسے سینچو گے تمنائے ثمر میں یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا نہ پھلا ہے ملتا ہے خراج اس کو تری نان جویں سے ہر بادشہ وقت ترے در کا گدا ہے ہر ایک عقوبت سے ہے تلخی میں سوا تر وہ رنگ جو ناکردہ گناہوں کی سزا ہے احسان لیے ...

    مزید پڑھیے

    چشم میگوں ذرا ادھر کر دے

    چشم میگوں ذرا ادھر کر دے دست قدرت کو بے اثر کر دے تیز ہے آج درد دل ساقی تلخی مے کو تیز تر کر دے جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی چاک دامن کو تا جگر کر دے میری قسمت سے کھیلنے والے مجھ کو قسمت سے بے خبر کر دے لٹ رہی ہے مری متاع نیاز کاش وہ اس طرف نظر کر دے فیضؔ تکمیل آرزو معلوم ہو سکے تو ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

    ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی یہ برہمن کا کرم وہ عطائے شیخ حرم کبھی حیات کبھی مے حرام ہوتی رہی جو کچھ بھی بن نہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی (ردیف .. ا)

    نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے بتوں نے کی ہیں جہاں میں ...

    مزید پڑھیے

    دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت (ردیف .. ے)

    دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہ ندا پر جو بشارت تمہید مسرت ہے کہ طول شب غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں یہ خون شہیداں ہے کہ زر خانۂ جم ہے حلقہ ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں

    سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی ...

    مزید پڑھیے

    شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی

    شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی شکر ہے زندگی تباہ نہ کی تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی تیرے دست ستم کا عجز نہیں دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی تھے شب ہجر کام اور بہت ہم نے فکر دل تباہ نہ کی کون قاتل بچا ہے شہر میں فیضؔ جس سے یاروں نے رسم و راہ نہ کی

    مزید پڑھیے

    سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں

    سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں شمع نظر خیال کے انجم جگر کے داغ جتنے چراغ ہیں تری محفل سے آئے ہیں اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں ہر اک قدم اجل تھا ہر اک گام زندگی ہم گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے ...

    مزید پڑھیے

    گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا

    گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا منزل کو نہ پہچانے رہ عشق کا راہی ناداں ہی سہی ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا تھک کر یوں ہی پل بھر کے لیے آنکھ لگی تھی سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر حریف بہار ہو بیٹھے

    پھر حریف بہار ہو بیٹھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے تھی مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے ساری دنیا سے دور ہو جائے جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے فیضؔ ہوتا رہے جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5