Faisal Azeem

فیصل عظیم

فیصل عظیم کی نظم

    رنگ اپنے

    ایک دیوار اور اس پر وہ مرے نقش و نگار میری دیوار پہ دعویٰ سو یہ دعویٰ کیسا ایک دیوار پہ دیوار کے رنگوں پہ کہاں ختم یہ بات ایک پچکاری کی ہیں مار یہ سب نقش و نگار جاؤ جانے دو اسے اور کھرچ لے جائے نقش کیا ہے مرے ہاتھوں کا تحرک ہے بس رنگ کیا ہیں مرے ہاتھوں میں دبی پچکاری شہر کیا ہے مری ...

    مزید پڑھیے

    واجب القتل

    ماہ کامل حیرت کی تصویر ہو جیسے حد چاہ نخشب عالمگیر ہو جیسے ہولی کے رنگوں کا دھوکہ چہروں پر تحریر ہو جیسے بھیگی رات میں آب شر انگیز کے مارے مست ستارے اپنی چالیں چوک رہے ہیں دہلیزوں پر پگھلی شمعیں نیلے بادل کے پردے میں اوجھل ہوتے آنکھ کے تارے ڈھونڈ رہی ہیں آئینوں سے نالاں نقش سے ...

    مزید پڑھیے

    سوختہ جسم کا لباس

    لباس جل کر مرے بدن پر چپک گیا ہے بدن مسلسل سلگ رہا ہے کہیں کہیں بھولے بھٹکے شعلے اٹھا کے لو سر کی اب بھی باہر کو جھولتے ہیں جنہیں میں اپنی جلی ہتھیلی کی پشت سے خود دبا رہا ہوں الاؤ سے باہر آ کے دہشت زدہ نگاہوں سے دیکھتا ہوں کہیں سے اب ایمبولنس آئے گی میری جانب کوئی مسیحا نفس ...

    مزید پڑھیے

    وقت کی باڑھ

    جھلملوں کی آڑ میں رقصاں درد کی آندھی شور مچا کر پانی کی دیوار اٹھا کر وقت کی سرحد توڑ رہی ہے پانی کی دیوار میں قطرہ قطرہ روزن کھول رہی ہے آنکھیں اپنے ہاتھ بڑھائے روزن کے اس پار کھلی ہیں عکس کی تہ میں عکس کو چھو کر دیکھ رہی ہیں بھیگے چہرے جسموں کی محتاط فصیلوں پر چپکے بے خود ...

    مزید پڑھیے

    مری آنکھوں سے دیکھو

    اک روز اپنے آپ کو میں نے خلا کی وسعتوں سے جھانک کر دیکھا تو وحشت میں پلٹ آیا کہیں پر دور اک نقطہ سا روشن تھا اور اس نقطے میں اک ذرہ نظر آیا زمیں کہیے زماں کہیے کہ اپنا آسماں کہیے سبھی کچھ اس میں گم پایا وہی ذرہ کہ جس کی وسعتوں کو بانٹ کر ہم نے کئی خطے بنا ڈالے اور ان خطوں میں ہم نے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2