Faisal Azeem

فیصل عظیم

فیصل عظیم کے تمام مواد

2 مضمون (Articles)

    رحمان خاور صاحب کی کتاب ’’دوہے، دوہا رنگ‘‘

    پِرتھم دوہے کبیرؔ کے، اَنتِم میرے گیت / میری سانچی بات سن، جگ کی جھوٹی ریت ’’دوہے، دوہا رنگ‘‘ پڑھی اور جھوم کے پڑھی۔ گیت کی طرح، دوہا ایک نغمہ صفت صنف ہے۔ ہیٔت یا آہنگ کا معاملہ اپنی جگہ لیکن دوہے کی زبان، مضامین اور سادگی، وہ فضا بناتے ہیں جو گیت کا سا مزہ دیتی ہے۔ پھر اگر اسے ...

    مزید پڑھیے

    نثری نظم اور کتاب ’’ایسا ضروری تو نہیں‘‘

    اگر میں بات یہیں سے شروع کرلوں کہ ہر شخص شعر کہے ایسا ضروری تو نہیں، تو یہ ایک جملۂ معترضہ ہوگا مگر ایسا کہنا ضروری ہے کیونکہ اگر آپ کے پاس کچھ کہنے کو نہیں تو کس حکیم نے کہا ہے کہ درخت کٹوا کر کاغذ ضائع کریں۔ لیکن یہ اشد ضروری ہے کہ آپ شعرکہیں، نثر لکھیں یا کسی اور طرح اظہار کریں ...

    مزید پڑھیے

13 غزل (Ghazal)

    گو تار عنکبوت آیا نہیں اب تک گمانوں میں

    گو تار عنکبوت آیا نہیں اب تک گمانوں میں مگر کچھ مکڑیوں کی سرسراہٹ سی ہے کانوں میں زمیں زادوں کو اب مٹی سے تو وابستہ رہنے دو خدارا فصل نو کا ذوق رہنے دو کسانوں میں سروں سے آسماں بھی کیا ہٹایا جانے والا ہے شبیہیں مہر و مہ کی ٹانکتے ہو کیوں مکانوں میں ذرا ٹھہرو اگے گی بھوک بھی ...

    مزید پڑھیے

    تصویر نا مکمل اک تشنگی کا خاکہ (ردیف .. ا)

    تصویر نا مکمل اک تشنگی کا خاکہ پر پھڑپھڑا رہا ہے عنقا مری صدا کا سب کیوں دکھا رہے ہیں موہوم سی خراشیں پوچھا تھا صرف میں نے بیمار سے دوا کا دیوانگی نہیں جو چھو چھو کے دیکھتا ہوں آنکھیں ہی اب ملی ہیں اندھا تھا میں سدا کا ہاتھوں کو جانے کب سے بس دھوئے جا رہا ہوں سادہ سے کینوس پر ...

    مزید پڑھیے

    یہ منتر بھی پرانے جام جم بھی

    یہ منتر بھی پرانے جام جم بھی بہت دیکھے ہیں یہ نقش قدم بھی یہ ناٹک ہو رہے ہیں مدتوں سے کہاں تک تالیاں پیٹیں گے ہم بھی نئے سجدے نئی ہیں سجدہ گاہیں رکھے جائیں گے بوسیدہ صنم بھی ابھی پردے اٹھیں گے دیکھ لینا نظر آئیں گے پس منظر میں ہم بھی

    مزید پڑھیے

    اب کسی تصویر کی رعنائیاں باتیں کریں

    اب کسی تصویر کی رعنائیاں باتیں کریں میں تو چپ ہوں اب مری تنہائیاں باتیں کریں اتنی دیواروں میں اک دیوار ہی سمجھا مجھے آ کے میرے سائے میں پرچھائیاں باتیں کریں روکنا بھی ناروا ہے ٹوکنا بھی ناگوار کان تب ہوتے ہیں جب رسوائیاں باتیں کریں خود کلامی کا فسوں تنہائیوں کی گفتگو اس سے ...

    مزید پڑھیے

    اک ہاتھ پہ آنکھیں رکھی ہیں اک ہاتھ پہ چہرا ہوتا ہے

    اک ہاتھ پہ آنکھیں رکھی ہیں اک ہاتھ پہ چہرا ہوتا ہے ہر گام مداری بیٹھے ہیں ہر وقت تماشا ہوتا ہے اب کون یہاں مجذوب نہیں بازار میں کیا موجود نہیں عرفان کی مالا بکتی ہے الہام کا سودا ہوتا ہے اپنی خلوت میں دھیان کہاں خاموشی ہے وجدان کہاں اک آندھی خاک اڑاتی ہے اک آگ کا دریا ہوتا ...

    مزید پڑھیے

تمام

15 نظم (Nazm)

    سیلاب کے بعد

    پانی اچھا خاصہ گلے تک آ پہنچا تھا اچھی خاصی ڈوب گئی تھی ساری بستی اچھا خاصہ اک سیلاب تھا پانی اترا بھیگے جسم پہ چپکے کپڑوں اور خاشاک کا منظر ابھرا پانی کیا اترا تنہائی ابھر آئی ہے وہ جو نہیں تھا وہ بھی جیسے سیل رواں کے ساتھ گیا ہو گلیوں میں بے جان بدن ہیں یا سناٹا تیر رہا ہے

    مزید پڑھیے

    زمستاں

    سخت سفاک خود میں سمٹ کر چٹختی ہوئی برف اور منجمد جسم و جاں رات جذبوں کی قبروں پہ کتبے کے مانند اٹکی ہوئی ہاتھ کھرچے ہوئے سانس اکھڑی ہوئی لفظ گویا سماعت کے پردے سے ٹکرا کے چپکے ہوئے برف پر چار و نا چار، پیروں کی جمتی ہوئی انگلیاں ہڈیوں کی دراڑوں میں گھستی ہوا خون تک راہ پانے کی ...

    مزید پڑھیے

    غلام گردش

    خوشی عدم کے کسی جھروکے کی اوٹ سے جھانکتی نظر کا فریب کوئی طویل بے رحم راستوں پر سراب کوئی تمام شب جگنوؤں کو چننے کا خواب کوئی خوشی وہ رہ رہ کے چند لمحوں کو سانس لیتا حباب کوئی اداس تاروں کو چھیڑتی انگلیوں کے زخموں سے اٹھتے سر کے خیال میں گم رباب کوئی خوشی کہ میزان کے جزیروں سے ...

    مزید پڑھیے

    شیشے کا بلب

    وہ شیشے کا بلب اور کوئی اس کے اندر بہت ہانپتا گول دیواروں کو جلدی جلدی کھرچتا پھسلتا ہے گرتا ہے اٹھتا ہے فوراً مسلسل کھرچتے ہی جاتا ہے لیکن اسے ڈر ہے سر پر لٹکتا ہوا دھاتی لچھا کہیں جل اٹھا تو اسے بھون دے گا مگر اتنی وحشت میں اس کو خبر کیا کہ لچھا سلامت نہ اب برقی رو اس کے تاروں ...

    مزید پڑھیے

    عالمین

    خواب ہے یا کوئی تصور ہے یہ توازن یہ فکر کا میزان اتنا گہرا خموش آوازہ ہر تحرک بقدر اندازہ بے حصاری کا یہ معدوم حصار کائناتوں کا بے شمار شمار قلزم بے کنار کا عالم عالموں کے غبار کا عالم کہکشاؤں کے ہار لا محدود مہر بے اختیار لا محدود بے حد و بے حساب سیارے داغ بے داغ بے پنہ تارے ایسا ...

    مزید پڑھیے

تمام