Faisal Azeem

فیصل عظیم

فیصل عظیم کی غزل

    اسے معلوم ہے سب کچھ وہی ہے رازداں اپنا

    اسے معلوم ہے سب کچھ وہی ہے رازداں اپنا مگر مجھ سے ہی سننا چاہتا ہے وہ بیاں اپنا یہاں پر شان جاتی ہے وہاں پر جان جاتی ہے زمیں چھوٹی تو لگتا ہے کہ چھوٹا آسماں اپنا جو گزرا ہے سو گزرا ہے جو آئے گا سو آئے گا جو اب ہے وہ بھلا کب ہے کوئی لمحہ کہاں اپنا میں جس کے دل میں رہتا ہوں میں جس کی ...

    مزید پڑھیے

    پلکیں نیند سے بوجھل ہیں یا اب منظر کی تاب نہیں

    پلکیں نیند سے بوجھل ہیں یا اب منظر کی تاب نہیں کیوں ان جلتی آنکھوں میں اب رنگ برنگے خواب نہیں اک مدت سے کس ناطق کی نوک زباں پر اٹکا ہوں میں اک لفظ ہوں گویا وہ بھی معنی سے سیراب نہیں آنکھیں ہیں یا خار مغیلاں چہرہ ہے یا صحرا ہے لفظ بہت نایاب ہیں پیارے درد مگر نایاب نہیں میری بلا ...

    مزید پڑھیے

    نہ چہرے سے نہ آنکھوں سے عیاں عشق

    نہ چہرے سے نہ آنکھوں سے عیاں عشق ابھی دل پر ترے اترا کہاں عشق ابھی تک صرف آوازیں سنی ہیں ابھی تک لکھ رہی ہیں انگلیاں عشق زباں پر اس قدر گردان کیوں ہے تو کیسے ہوش میں کہتا ہے ہاں عشق زمیں سے آسماں تک گل کھلے ہیں تڑپ کر ہو رہے ہیں جسم و جاں عشق یہی تو اعتبار شب کدہ ہے مرا حاصل ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2