Faisal Azeem

فیصل عظیم

فیصل عظیم کی غزل

    گو تار عنکبوت آیا نہیں اب تک گمانوں میں

    گو تار عنکبوت آیا نہیں اب تک گمانوں میں مگر کچھ مکڑیوں کی سرسراہٹ سی ہے کانوں میں زمیں زادوں کو اب مٹی سے تو وابستہ رہنے دو خدارا فصل نو کا ذوق رہنے دو کسانوں میں سروں سے آسماں بھی کیا ہٹایا جانے والا ہے شبیہیں مہر و مہ کی ٹانکتے ہو کیوں مکانوں میں ذرا ٹھہرو اگے گی بھوک بھی ...

    مزید پڑھیے

    تصویر نا مکمل اک تشنگی کا خاکہ (ردیف .. ا)

    تصویر نا مکمل اک تشنگی کا خاکہ پر پھڑپھڑا رہا ہے عنقا مری صدا کا سب کیوں دکھا رہے ہیں موہوم سی خراشیں پوچھا تھا صرف میں نے بیمار سے دوا کا دیوانگی نہیں جو چھو چھو کے دیکھتا ہوں آنکھیں ہی اب ملی ہیں اندھا تھا میں سدا کا ہاتھوں کو جانے کب سے بس دھوئے جا رہا ہوں سادہ سے کینوس پر ...

    مزید پڑھیے

    یہ منتر بھی پرانے جام جم بھی

    یہ منتر بھی پرانے جام جم بھی بہت دیکھے ہیں یہ نقش قدم بھی یہ ناٹک ہو رہے ہیں مدتوں سے کہاں تک تالیاں پیٹیں گے ہم بھی نئے سجدے نئی ہیں سجدہ گاہیں رکھے جائیں گے بوسیدہ صنم بھی ابھی پردے اٹھیں گے دیکھ لینا نظر آئیں گے پس منظر میں ہم بھی

    مزید پڑھیے

    اب کسی تصویر کی رعنائیاں باتیں کریں

    اب کسی تصویر کی رعنائیاں باتیں کریں میں تو چپ ہوں اب مری تنہائیاں باتیں کریں اتنی دیواروں میں اک دیوار ہی سمجھا مجھے آ کے میرے سائے میں پرچھائیاں باتیں کریں روکنا بھی ناروا ہے ٹوکنا بھی ناگوار کان تب ہوتے ہیں جب رسوائیاں باتیں کریں خود کلامی کا فسوں تنہائیوں کی گفتگو اس سے ...

    مزید پڑھیے

    اک ہاتھ پہ آنکھیں رکھی ہیں اک ہاتھ پہ چہرا ہوتا ہے

    اک ہاتھ پہ آنکھیں رکھی ہیں اک ہاتھ پہ چہرا ہوتا ہے ہر گام مداری بیٹھے ہیں ہر وقت تماشا ہوتا ہے اب کون یہاں مجذوب نہیں بازار میں کیا موجود نہیں عرفان کی مالا بکتی ہے الہام کا سودا ہوتا ہے اپنی خلوت میں دھیان کہاں خاموشی ہے وجدان کہاں اک آندھی خاک اڑاتی ہے اک آگ کا دریا ہوتا ...

    مزید پڑھیے

    بھری ہے آگ جیبوں میں کف افسوس ملتے ہیں

    بھری ہے آگ جیبوں میں کف افسوس ملتے ہیں ہماری ہی کمائی سے ہمارے ہاتھ جلتے ہیں مرے اطراف میں یہ کھینچا تانی کم نہیں ہوتی ادھر پہلو بدلتا ہوں ادھر جالے بدلتے ہیں کسی کو بھی وہ انگارہ دکھائی ہی نہیں دیتا اشارے سے بتاتا ہوں تو اپنے ہاتھ جلتے ہیں میں اپنے جسم سے باہر ہوں یا روحوں کا ...

    مزید پڑھیے

    کٹ گئیں جب جوش اظہار ہنر میں انگلیاں

    کٹ گئیں جب جوش اظہار ہنر میں انگلیاں تب کہیں ڈوبیں مرے خون جگر میں انگلیاں دیکھیے انجام کیا ہو اب وفا کی راہ پر ہم پہ تو اٹھی ہیں آغاز سفر میں انگلیاں آخر شب میں دیا خود کو بنایا تھا کبھی آج بھی جلتی ہیں امید سحر میں انگلیاں لکھ رہی ہیں ریگ ساحل پر انوکھی خواہشیں آ گئی ہیں تیری ...

    مزید پڑھیے

    تری تلخی کو چکھوں یا ترے حسن معانی کو

    تری تلخی کو چکھوں یا ترے حسن معانی کو کتاب زندگی کس نے لکھا میری کہانی کو تو سر تا پا کوئی فتنہ بھی ہے شہکار فطرت بھی مگر میں زندگی کے نام کر آیا جوانی کو یہ کرنیں پھوٹتی ہیں جو ترے چاک گریباں سے انہی کے نور سے لکھا گیا میری کہانی کو یہ کب جانا کسی نے اے مجسم راز تو کیا ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    جسے کل رات بھر پوجا گیا تھا

    جسے کل رات بھر پوجا گیا تھا وہ بت کیوں صبح کو ٹوٹا ہوا تھا اگر سچ کی حقیقت اب کھلی ہے تو جو اب تک نظر آیا تھا کیا تھا اگر یہ تلخیوں کی ابتدا ہے تو اب تک کون سا امرت پیا تھا کھلا ہے مجھ پہ اب دنیا کا مطلب مگر یہ راز پہلے بھی کھلا تھا میں جس میں ہوں یہ دنیا مختلف ہے جہاں میں تھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    دل پر دھڑکن دھڑکن پر وہم اتارے جاتے ہیں

    دل پر دھڑکن دھڑکن پر وہم اتارے جاتے ہیں ہم اپنے ہی خوف کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں دیکھوں تو آئینے کا زنگار سلگتا ہے بند کروں تو آنکھوں کے انگارے جاتے ہیں ڈھونڈ رہے ہیں کب سے اپنے لہجے کا تریاک لفظ ہمارے ہم پر ہی پھنکارے جاتے ہیں نئے پرندے نئی اڑانیں نئی سحر کے گیت بیداروں پر روشن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2