تھوڑی مے نذر جام کر دیجے
تھوڑی مے نذر جام کر دیجے ہم غریبوں کی شام کر دیجے اور اٹھا کر نقاب چہرے سے بزم میں قتل عام کر دیجے
تھوڑی مے نذر جام کر دیجے ہم غریبوں کی شام کر دیجے اور اٹھا کر نقاب چہرے سے بزم میں قتل عام کر دیجے
دل کی محفل کو سجایا ہے بڑی دیر کے بعد اپنے زخموں کو ہنسایا ہے بڑی دیر کے بعد تم بھی آ جاؤ کہ ہر شے پہ بہار آئی ہے آج پھر تم کو بلایا ہے بڑی دیر کے بعد
مندروں، مسجدوں کی دنیا میں شکل و صورت میں نیک ہوتے ہیں اور اس دل کی بات پوچھو تو میکدے میں سب ایک ہوتے ہیں
کیف ہی کیف ہے فضاؤں میں رنگ کیا روپ بھی شرابی ہے توڑ لینے دو سیب پیڑوں سے ہاں! طبیعت بڑی گلابی ہے
تیرے سر پر جنون ہے پیارے مستقل بے سکون ہے پیارے کھیل ہولی، مگر یہ سوچ کے کھیل آدمی کا یہ خون ہے پیارے