جو اس زلف پیچاں کو ہم دیکھتے ہیں
جو اس زلف پیچاں کو ہم دیکھتے ہیں دھواں سا یہ ہر پیچ و خم دیکھتے ہیں نظر ان کی کمزور اتنی ہوئی ہے کہ عینک سے بھی اب وہ کم دیکھتے ہیں سنپولوں کو رکھتے تھے جن میں چھپا کر اب ان آستینوں میں بم دیکھتے ہیں ترے میکدے کے بلانوش مے کش نہ جن دیکھتے ہیں نہ رم دیکھتے ہیں وہ گزرے ہیں موٹر سے ...