Azhar Faragh

اظہر فراغ

پاکستان کی نئی نسل کے مشہور شاعر، ’میں کسی داستان سے ابھروں گا‘ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا

A famous Pakistani poet of the younger generation; published a collection Main Kisi Daastaan se Ubhrunga.

اظہر فراغ کی غزل

    باغ سے جھولے اتر گئے

    باغ سے جھولے اتر گئے سندر چہرے اتر گئے لٹک گئے دیوار سے ہم سیڑھی والے اتر گئے گھر میں کس کا پاؤں پڑا چھت کے جالے اتر گئے بھینٹ چڑھے تم عجلت کی پیڑ سے کچے اتر گئے وصل کے ایک ہی جھونکے میں کان سے بالے اتر گئے بھاگوں والی بستی تھی جہاں پرندے اتر گئے اک دن ایسا ہوش آیا سارے نشے ...

    مزید پڑھیے

    ترے بعد کوئی بھی غم اثر نہیں کر سکا

    ترے بعد کوئی بھی غم اثر نہیں کر سکا کوئی سانحہ مری آنکھ تر نہیں کر سکا مجھے علم تھا مجھے کم پڑے گی یہ روشنی سو میں انحصار چراغ پر نہیں کر سکا مجھے جھوٹ کے وہ جواز پیش کیے گئے کسی بات پر میں اگر مگر نہیں کر سکا مجھے چال چلنے میں دیر ہو گئی اور میں کوئی ایک مہرہ ادھرادھر نہیں کر ...

    مزید پڑھیے

    جاتے ہوئے نہیں رہا پھر بھی ہمارے دھیان میں

    جاتے ہوئے نہیں رہا پھر بھی ہمارے دھیان میں دیکھی بھی ہم نے مچھلیاں شیشے کے مرتبان میں پہلے بھی اپنی جھولیاں جھاڑ کر اٹھ گئے تھے ہم ایسی ہی ایک رات تھی ایسی ہی داستان میں ساتھ ضعیف باپ کے لگ گئیں کام کاج پر گہنے چھپا کے لڑکیاں دادی کے پان دان میں گھنٹی بجا کے بھاگتے بچوں کو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی شکل مرے دل میں اتر سکتی ہے

    کوئی بھی شکل مرے دل میں اتر سکتی ہے اک رفاقت میں کہاں عمر گزر سکتی ہے تجھ سے کچھ اور تعلق بھی ضروری ہے مرا یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے میری خواہش ہے کہ پھولوں سے تجھے فتح کروں ورنہ یہ کام تو تلوار بھی کر سکتی ہے ہو اگر موج میں ہم جیسا کوئی اندھا فقیر ایک سکے سے بھی تقدیر ...

    مزید پڑھیے

    کمی ہے کون سی گھر میں دکھانے لگ گئے ہیں

    کمی ہے کون سی گھر میں دکھانے لگ گئے ہیں چراغ اور اندھیرا بڑھانے لگ گئے ہیں یہ اعتماد بھی میرا دیا ہوا ہے تجھے جو میرے مشورے بے کار جانے لگ گئے ہیں میں اتنا وعدہ فراموش بھی نہیں ہوں کہ آپ مرے لباس پہ گرہیں لگانے لگ گئے ہیں وہ پہلے تنہا خزانے کے خواب دیکھتا تھا اب اپنے ہاتھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ میں سایا بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں

    دھوپ میں سایا بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں بڑے لوگوں کے خسارے بھی بڑے ہوتے ہیں ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ صبح ہوتے ہی ...

    مزید پڑھیے

    ڈرے ہوئے ہیں سبھی لوگ ابر چھانے سے

    ڈرے ہوئے ہیں سبھی لوگ ابر چھانے سے وہ آئی بام پہ کیا دھوپ کے بہانے سے وہ قصہ گو تو بہت جلدباز آدمی تھا بہت سی لکڑیاں ہم رہ گئے جلانے سے نظر تو ڈال روانی کی استقامت پر یہ آبشار ہے کہسار کے گھرانے سے مسافران محبت مجھے معاف کریں میں باز آیا انہیں راستہ دکھانے سے اگر میں آخری بازی ...

    مزید پڑھیے

    دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

    دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا تالے کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا کبھی کبھی آتی تھی پہلے وصل کی لذت اندر تک بارش ترچھی پڑتی تھی تو کمرہ گیلا ہوتا تھا شکر کرو تم اس بستی میں بھی اسکول کھلا ورنہ مر جانے کے بعد کسی کا سپنا پورا ہوتا تھا جب تک ماتھا چوم کے رخصت ...

    مزید پڑھیے

    بہ فیض عشق حرف عین پر ڈٹے رہے ہیں ہم

    بہ فیض عشق حرف عین پر ڈٹے رہے ہیں ہم شروع سے شروع ٹھیک باندھتے رہے ہیں ہم گلی میں کوئی تھا نہیں جو کہتا جاگتے رہو اسی لیے تمام رات جاگتے رہے ہیں ہم بجھے بجھے سے اس لیے عجیب لگ رہے ہو تم بڑے قریب سے یہ آگ تاپتے رہے ہیں ہم ہمیں ہے اور دسترس صنم گری کے کام پر مجسموں کو پتھروں میں ...

    مزید پڑھیے

    کیسے دنیا کا جائزہ کیا جائے

    کیسے دنیا کا جائزہ کیا جائے دھیان تجھ سے اگر ہٹا لیا جائے تیز آندھی میں یہ بھی کافی ہے پیڑ تصویر میں بچا لیا جائے ہم جسے چاہیں اپنا کہتے رہیں وہی اپنا ہے جس کو پا لیا جائے ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے زندگی موت کے دریچے کو ایک پردہ ہے جب اٹھا لیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2