تعبیروں کی حسرت میں کیسے کیسے خواب رہے
تعبیروں کی حسرت میں کیسے کیسے خواب رہے دولت اک دن برسے گی اب تو اپنی باری ہے اللہ جب بھی دیتا ہے چھپر پھاڑ کے دیتا ہے اس امید پہ ساری عمر چھپر تلے گزاری ہے
تعبیروں کی حسرت میں کیسے کیسے خواب رہے دولت اک دن برسے گی اب تو اپنی باری ہے اللہ جب بھی دیتا ہے چھپر پھاڑ کے دیتا ہے اس امید پہ ساری عمر چھپر تلے گزاری ہے
یہ تری زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا جس پہ قانون بھی لاگو ہو وہ ہتھیار چلا پیٹ ہی پھول گیا اتنے خمیرے کھا کر تیری حکمت نہ چلی اور ترا بیمار چلا بیویاں چار ہیں اور پھر بھی حسینوں سے شغف بھائی تو بیٹھ کے آرام سے گھر بار چلا اجرت عشق نہیں دیتا نہ دے بھاڑ میں جا لے ترے دام سے اب تیرا ...
ہم چھوڑ کے گھر اپنا آباد کریں صحرا جائیں تو کہاں جیدیؔ ایسی ہے پریشانی بچوں کو سلا دیں تو ہمسایہ نہیں سوتا فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
''صاحب زادے کرتے کیا ہیں'' لڑکی والوں نے پوچھا ''جب دیکھو فارغ پھرتے ہیں یا پیتے تمباکو ہیں!'' لڑکے کی اماں یہ بولیں کام کرے اس کی جوتی دو بھائی بھتہ لیتے ہیں ابا خیر سے ڈاکو ہیں