ویسے تو زندگی میں کچھ بھی نہ اس نے پایا
ویسے تو زندگی میں کچھ بھی نہ اس نے پایا جب دفن ہو گیا تو شاعر کے بھاگ جاگے وہ سادگی میں ان کو دو سامعین سمجھا بس آٹھویں غزل پر منکر نکیر بھاگے
ویسے تو زندگی میں کچھ بھی نہ اس نے پایا جب دفن ہو گیا تو شاعر کے بھاگ جاگے وہ سادگی میں ان کو دو سامعین سمجھا بس آٹھویں غزل پر منکر نکیر بھاگے
ہمارے علم نے بخشی ہے ہم کو آگاہی یہ کائنات ہے کیا اس زمیں پہ سب کیا ہے مگر بس اپنے ہی بارے میں کچھ نہیں معلوم مروڑ کل سے جو معدے میں ہے سبب کیا ہے
ہماری عید ہے ہم ہر طرح منائیں گے ہمارا شیخ کے فتوے پہ اعتبار نہیں ہمارے ڈپٹی کمشنر نے چاند دیکھا ہے ہمیں خبر ہے کہ وہ غیر ذمہ دار نہیں
ہیں شاعر و ادیب و مفکر عظیم تر اور پھر بھی انکسار سے ملتے ہیں سب سے وہ کچھ اور بھی ادب میں بڑھا ان کا مرتبہ بائیسویں گریڈ میں آئے ہیں جب سے وہ
کس قدر ظالم و وحشی تھا وہ پاگل موذی کاٹ کر سارے ہی دانتوں کے نشاں چھوڑ دیا ہے عجب بات کہ لیڈر تو بھلا چنگا رہا آئینہ دیکھا جو کتے نے تو دم توڑ دیا