Alqama Shibli

علقمہ شبلی

کلکتہ کے معروف شاعر۔ غزل، نظم اور رباعی جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی، بچوں کے لیے لکھی نظموں کے کئی مجموعے شائع ہوئے، کئی ادبی رسالوں کے مدیر رہے

Well-known poet from Kolkata, wrote Ghazal, Nazm, and Rubai; published several collections of poetry for children, also edited several literary journals

علقمہ شبلی کی غزل

    یہ کیا کہ چہرہ نقاب اندر نقاب رکھو

    یہ کیا کہ چہرہ نقاب اندر نقاب رکھو یہی ہے کافی بچا کے آنکھوں کی آب رکھو کہا یہ کس نے کہ روز و شب کا حساب رکھو بہ نام جاں کرب مستقل کا عذاب رکھو سروں کے اوپر سے جو تمہارے گزر گئی ہے ہمارے حصے میں دوستو وہ کتاب رکھو رہ تمنا میں جن سے رقصاں ہوں ماہ و انجم تم اپنی آنکھوں میں روشنی کے ...

    مزید پڑھیے

    دشت در دشت پھرا کرتا ہوں پیاسا ہوں میں

    دشت در دشت پھرا کرتا ہوں پیاسا ہوں میں اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ دریا ہوں میں تنگ صحرا نظر آیا ہے جو پھیلا ہوں میں ہو گئی ہے مری تصویر جو سمٹا ہوں میں جستجو جس کی سفینوں کو رہی ہے صدیوں دوستو میرے وہ بے نام جزیرہ ہوں میں کس لیے مجھ پہ ہے یہ سست روی کا الزام زندگی دیکھ لے خود تیرا ...

    مزید پڑھیے

    گمراہ ہو گیا رہ ہموار دیکھ کر

    گمراہ ہو گیا رہ ہموار دیکھ کر چلنا تھا دل کو جادۂ دشوار دیکھ کر جو سر جھکا تھا سنگ در یار دیکھ کر اونچا ہوا ہے پھر رسن و دار دیکھ کر شوریدگئ سر کو نہ تھا کوئی مشغلہ دل خوش ہوا ہے راہ میں دیوار دیکھ کر کیا میں کہوں کہ ہاتھ سے کیوں جام گر پڑا سرشار ہو گیا تجھے سرشار دیکھ کر گرچہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کے در پر قفل پڑا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ

    دل کے در پر قفل پڑا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ خاموشی اب شرط وفا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ بے صوتی اب صوت و صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ لفظوں کا دم ٹوٹ گیا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ کل تک تو جھنکار سلاسل کی تھی جینے کا پیغام آج یہ کیسا وقت پڑا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ گلشن گلشن صحرا ...

    مزید پڑھیے

    جنون شوق محبت کی آگہی دینا

    جنون شوق محبت کی آگہی دینا خودی بھی جس پہ ہو قرباں وہ بے خودی دینا نہ شور چاہئے دریا کی تند موجوں کا مرے لہو کو سمندر کی خامشی دینا تو دے نہ دے مرے لب کو شگفتگی گل کی جو دے سکے تو شگوفے کی بیکلی دینا شناخت جس سے زمانے میں آدمی کی ہے یہ التجا ہے کہ تو مجھ کو وہ خودی دینا جھکا سکے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی پڑھو تو مجھے حرف معتبر کی طرح

    کبھی پڑھو تو مجھے حرف معتبر کی طرح یہ کیا کہ پڑھتے ہو فرسودہ سی خبر کی طرح قلم تو کرتے ہو سر کو مرے مگر سن لو میں ریگ زار وفا میں ہوں ایک شجر کی طرح اداسی کھول کے بال اپنا سو رہی ہے یہاں کہ جیسے شہر میں ہر گھر ہے میرے گھر کی طرح ہمارے ذوق پرستش کو تم دعائیں دو چمک رہے ہیں یہ پتھر ...

    مزید پڑھیے

    دل کے دروازے پہ دستک کی صدا کوئی نہیں

    دل کے دروازے پہ دستک کی صدا کوئی نہیں کون سی منزل ہے یہ آواز پا کوئی نہیں مجلس آلام سے کس طرح نکلے زندگی یہ وہ زنداں ہے کہ جس کا راستہ کوئی نہیں کربلا تو آج بھی ملتا ہے ہر ہر گام پر شہر میں لیکن حسین با وفا کوئی نہیں کچھ سمجھ کر ہی کیا ہے میں نے اس کا انتخاب کیا ہوا اس راہ میں گر ...

    مزید پڑھیے

    نظر جو آتا ہے باہر میں کب وہ اندر ہوں

    نظر جو آتا ہے باہر میں کب وہ اندر ہوں میں آدمی ہوں کہاں آدمی کا پیکر ہوں رہا جو بھیڑ میں بھی مشفقوں کی سرافراز خدا گواہ میں ویسا ہی ایک مصدر ہوں سفینہ کوئی سلامت نہ رہ سکے گا اب قسم خدا کی میں بپھرا ہوا سمندر ہوں یہ اور بات کہ تم کو میں یاد آ نہ سکا وگرنہ آج بھی محفل میں ہر زباں ...

    مزید پڑھیے

    شمع کی طرح پگھلتے رہئے

    شمع کی طرح پگھلتے رہئے اپنی ہی آگ میں جلتے رہئے آج انساں کا مقدر ہے یہی ہر نئے سانچے میں ڈھلتے رہئے زندہ رہنے کی تمنا ہے اگر اپنا چہرہ بھی بدلتے رہئے چھاؤں کی طرح بڑھا بھی کیجے دھوپ کی طرح نہ ڈھلتے رہئے زندگی کی ہے علامت لغزش کیوں بہر گام سنبھلتے رہئے کام لیجے نہ زباں سے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں ملامت کا ہدف گردش پیمانہ بنے

    کیوں ملامت کا ہدف گردش پیمانہ بنے لغزش پا سے مری کعبہ و بت خانہ بنے عقل کے بس کی نہیں بخیہ‌ گری پھولوں کی درد جس کو ہو گلستاں کا وہ دیوانہ بنے لب حکمت سے شب و روز اجالے ٹپکے تیرہ ذہنی کا مگر یہ بھی مداوا نہ بنے بے سبب شوق نہیں مائل افسانہ گری ہر حقیقت کی یہ خواہش ہے کہ افسانہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2