غزل: کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
اقبال یوں تو نظم کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک ہیں ، مگر ان کی بہت سی غزلیں بھی ایک الگ اور اچھوتا رنگ رکھتی ہیں۔ خصوصاً ان کی وہ غزلیں ، جو بال جبریل میں ہیں۔ زیرِ نظر غزل بھی بال جبریل سے ہی لی گئی ہے۔
عظیم اردو شاعر اور 'سارے جہاں سے اچھا...' و 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' جیسے شہرہ آفاق ترانے کے خالق
One of the greatest Urdu Poets.National poet of Pakistan who penned 'Saare jahan se achaa hindustaan hamara', and 'Lab pe aati hai dua ban ke tamanna meri'.
اقبال یوں تو نظم کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک ہیں ، مگر ان کی بہت سی غزلیں بھی ایک الگ اور اچھوتا رنگ رکھتی ہیں۔ خصوصاً ان کی وہ غزلیں ، جو بال جبریل میں ہیں۔ زیرِ نظر غزل بھی بال جبریل سے ہی لی گئی ہے۔
میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، ۔ تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں ۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے ۔ (لیکن ) تیرے اندر جو داغ ہے اس کی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟ اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا۔
میرے مِٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی ؛ کیا بتاؤں ، اُن کا میرا سامنا کیونکر ہُوا !!!
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام پیر حرم نے کہا سن کے میری رویداد پختہ ہے تیری فغاں اب نہ اسے دل میں تھام تھا ارنی گو کلیم میں ارنی گو نہیں اس کو تقاضا روا مجھ پہ تقاضا حرام گرچہ ہے افشائے راز اہل نظر کی فغاں ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂ رندانہ ...
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ...
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی تمہارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی کھنچے خود بخود جانب طور ...
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ ...
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ ...
علامہ اقبال کو حکومت کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ ان کے استاد مولانا میر حسن کو بھی ’’شمس العلماء ‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے ۔حکام نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی کوئی تصنیف نہیں، انہیں کیسے خطاب دیا جاسکتا ہے ! علامہ نے فرمایا۔’’ان کی ...
علامہ اقبال بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت واقع ہوئے تھے ۔ ایک روز (جب ان کی عمر گیارہ سال کی تھی ) انہیں اسکول پہنچنے میں دیر ہوگئی ۔ماسٹر صاحب نے پوچھا’’اقبال تم دیر سے آئے ہو۔‘‘ اقبال نے بے ساختہ جواب دیا۔’’جی ہاں! اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے ۔‘‘
علامہ اقبالؔ چودھری شہاب الدین سے ہمیشہ مذاق کرتے تھے ۔چودھری صاحب بہت کالے تھے۔ایک دن علامہ چودھری صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے ۔ بتایا گیا کہ چودھری جی غسل خانے میں ہیں ۔ اقبال کچھ دیر انتظار میں بیٹھے رہے ۔ جب چودھری صاحب باہر آئے تو اقبالؔ نے کہا ’’پہلے آپ ایک بات بتائیے۔ آپ ...
علامہ اقبال نے جب کیمبرج یونیورسٹی سے بی۔ اے کرلیا تو ان کے بڑے بھائی نے انہیں لکھا کہ’’اب بیرسٹری کا کورس پورا کرکے واپس آجاؤ۔‘‘ لیکن علامہ کا اراداہ پی ایچ ڈی کرنے کا تھا ۔ اس لیے انہوں نے بھائی کو لکھا کہ ’’کچھ رقم بھیجئے تاکہ جرمنی جاکر ڈاکٹری کی سند لے لوں۔‘‘ انہیں ...
فقیر سید وحیدالدین کے ایک عزیز کو کتے پالنے کا بے حد شوق تھا۔ ایک روز وہ لوگ کتوں کے ہمراہ علامہ سے ملنے چلے آئے یہ لوگ ا تر اتر کر اندر جا بیٹھے اور کتے موٹر ہی میں رہے ۔ اتنے میں علامہ کی ننھی بچی منیر ہ بھاگتی ہوئی آئی اور باپ سے کہنے لگی ’’ابا ابا موٹر میں کتے آئے ہیں ۔‘‘ ...
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی یہی فرزند آدم ہے کہ جس کے اشک خونیں سے کیا ہے ...
ابلیس یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیائے دوں ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم ...
عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی! سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی! جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی! تری نوا سے ہے بے ...
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ! مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! اس جلوۂ بے پردہ کو پردہ میں چھپا دیکھ! ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ! بیتاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ! ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ...
سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے بھلایا قصۂ پیمان اولیں میں نے لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں ...
کل اپنے مریدوں سے کہا پیر مغاں نے قیمت میں یہ معنی ہے در ناب سے دہ چند زہراب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ جس قوم کے بچے نہیں خوددار و ہنر مند
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد ہوائے سیر مثال نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر
عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرۂ لا یحزنوں،کر خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
تری دنیا جہان مرغ و ماہی مری دنیا فغان صبح گاہی تری دنیا میں میں محکوم و مجبور مری دنیا میں تیری پادشاہی!
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی نفس ہندی مقام نغمہ تازی! نگہ آلودۂ انداز افرنگ! طبیعت غزنوی قسمت ایازی!
ترا تن روح سے نا آشنا ہے عجب کیا آہ تیری نارسا ہے تن بے روح سے بے زار ہے حق خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے
مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں وہ اپنی لا مکانی میں رہیں مست مجھے اتنا بتا دیں میں کہاں ہوں