Allama Iqbal

علامہ اقبال

عظیم اردو شاعر اور 'سارے جہاں سے اچھا...' و 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' جیسے شہرہ آفاق ترانے کے خالق

One of the greatest Urdu Poets.National poet of Pakistan who penned 'Saare jahan se achaa hindustaan hamara', and 'Lab pe aati hai dua ban ke tamanna meri'.

علامہ اقبال کی غزل

    اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد

    اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد یہ مشت خاک یہ صرصر یہ وسعت افلاک کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل یہی ہے فصل بہاری یہی ہے باد مراد قصوروار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد مری جفا طلبی کو ...

    مزید پڑھیے

    وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

    وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں عجب مزہ ہے مجھے لذت خودی دے کر وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

    کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں دم طوف کرمک شمع نے یہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

    نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ محبت کے وہ خار و خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے ...

    مزید پڑھیے

    جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

    جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی دارا ...

    مزید پڑھیے

    اک دانش نورانی اک دانش برہانی

    اک دانش نورانی اک دانش برہانی ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی ہو نقش اگر باطل تکرار سے کیا حاصل کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ...

    مزید پڑھیے

    فطرت کو خرد کے روبرو کر

    فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیر مقام رنگ و بو کر تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر تاروں کی فضا ہے بیکرانہ تو بھی یہ مقام آرزو کر عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں چاک گل و لالہ کو رفو کر بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر

    مزید پڑھیے

    یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن (ردیف .. د)

    یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن کیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنر مند گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند تو برگ گیا ہے نہ وہی اہل خرد را او کشت گل و لالہ بہ بخشد بہ خرے چند حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گلگوں مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و ...

    مزید پڑھیے

    میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

    میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشہ بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے ...

    مزید پڑھیے

    خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

    خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4