میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو
میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو خیر گر تم بھی نہیں ہو مرے غم خواروں میں تم نہ آؤگی تو کیا اب نہیں آئے گی بہار پھول کیا اب نہ کھلیں گے مرے گلزاروں میں
ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں، نقاد، دانشور اور رسالہ ’گفتگو‘ کے مدیر، گیان پیٹھ انعام سے سرفراز، اردو شاعروں پر دستاویزی فلمیں بنائیں
One of the most celebrated progressive poets, literary critic, public intellectual and editor.Contemporary of Faiz Ahmad Faiz. Recipient of Gyanpeeth Award. Produced documentaries on Urdu poetry.
میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو خیر گر تم بھی نہیں ہو مرے غم خواروں میں تم نہ آؤگی تو کیا اب نہیں آئے گی بہار پھول کیا اب نہ کھلیں گے مرے گلزاروں میں
کوئی ہر گام پہ سو دام بچھا جاتا ہے راستے میں کوئی دیوار اٹھا جاتا ہے موت کی وادئ ظلمت میں علم کھولے ہوئے کارواں زیست کا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
ہر ایک خوشی درد کے دامن میں پلی ہے نسبت ہے ہر اک نغمے کو بسمل کے گلو سے پیراہن گل، دست صبا ,پنجۂ گلچیں رنگین ہے ہر چیز شہیدوں کے لہو سے
میری دنیا میں محبت نہیں کہتے ہیں اسے یوں تو ہر سنگ کے سینے میں شرر ملتا ہے سیکڑوں اشک جب آنکھوں سے برس جاتے ہیں تب کہیں ایک محبت کا گہر ملتا ہے
اپنے اڑتے ہوئے آنچل کو نہ رہ رہ کے سنبھال حسن کے پرچم زر تار کو لہرانے دے گر گیا پھول مہکتے ہوئے جوڑے سے تو کیا زلف کو تا بہ کمر آ کے مچل جانے دے
تو نہیں ہے نہ سہی تیری محبت کا خیال ڈھونڈھ لیتا ہے تجھے حسن کی نظاروں میں مسکراتا ہے دم صبح افق سے کوئی رقص کرتا ہے کوئی رات کو سیاروں میں
میں نے اپنا ہی بھگویا ہے ابھی تو دامن تیرا دامن بھی تو اے دوست بھگونا ہے مجھے داغ غم تو نے جو سینے میں چھپا رکھا ہے اپنے اشکوں سے اسی داغ کو دھونا ہے مجھے
زندگانی نے دیا ہے یہ مجھے حکم کہ تو شب تاریک کے دامن میں ستارے بھر دے پھونک دے جمع ہے جتنا خس و خاشاک نفاق قلب انساں میں محبت کے شرارے بھر دے
گو مرے سر پہ سیہ رات کی پرچھائیں ہے میرے ہاتھوں میں ہے سورج کا چھلکتا ہوا جام میرے افکار میں ہے تلخیٔ امروز مگر میرے اشعار میں ہے عشرت فردا کا پیام
چھلکی ساغر میں مئے ناب گوارہ بن کر چمکی آنکھوں میں محبت کا ستارہ بن کر ''خاک'' سے زیست بنی زیست سے احساس نشاط اور پھر ناچ اٹھی حسن دل آرا بن کر