Ali Sardar Jafri

علی سردار جعفری

ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں، نقاد، دانشور اور رسالہ ’گفتگو‘ کے مدیر، گیان پیٹھ انعام سے سرفراز، اردو شاعروں پر دستاویزی فلمیں بنائیں

One of the most celebrated progressive poets, literary critic, public intellectual and editor.Contemporary of Faiz Ahmad Faiz. Recipient of Gyanpeeth Award. Produced documentaries on Urdu poetry.

علی سردار جعفری کے تمام مواد

8 مضمون (Articles)

    ترقی پسند مصنفین کی تحریک

    دیکھ شمشیر ہے یہ، ساز ہے یہ، جام ہے یہ تو جو شمشیر اٹھالے تو بڑا کام ہے یہ (مجاز) ’’بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب ہر دور میں ترقی پسند ادب کی تخلیق ہوتی رہی اور جب حالی، شبلی اور اقبال بھی ترقی پسند ہیں تو پھر آخر ترقی پسند مصنفین کی انجمن بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ سوال ایسا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کبیر: حرف محبت

    بڑی شاعری کی یہ عجیب وغریب خصوصیت ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتی ہے، پھر اس کے وجود سے شاعر کا وجود پہچانا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی کے حالات گزرے ہوئے زمانے کے دھندلکے میں کھو جاتے ہیں اور واقعات افسانے کا لباس پہن لیتے ہیں۔پرانی تاریخ نگاری چونکہ ...

    مزید پڑھیے

    پابلونرودا کی شخصیت

    کتابوں کی دکانوں پر جانا اور وہاں گھنٹوں نئی کتابوں کی ورق گردانی کرنا میری پرانی عادت ہے۔ کتابوں کی خریداری ایک ادیب اور شاعر کے لئے ضرورت بھی ہے اور عیاشی بھی اور دونوں کے لئے جیب میں روپیہ ہونا ضروری ہے۔ روپے کی کمی کی وجہ سے اپنے ذوق کی تسکین، میں کتابوں کی دکانوں میں مفت ...

    مزید پڑھیے

    اقبال کی غزل

    اقبال کی غزل میں حافظ کی سرشاری، غالب کی بلندی فکر اور رومی کے دل کی بےتابی ہے اور اس کے سوا کچھ اوربھی جو صرف اقبال کی اپنی دین ہے۔ اس کچھ اور کے لئے الفاظ تلاش نہیں کئے جا سکتے۔ اس کا احاطہ نہ تو شاعر مشرق کی روح کا سوز و گداز کہہ کر کیا جا سکتا ہے نہ فکرکی مرعوب کن عظمت کہہ کر۔ یہ ...

    مزید پڑھیے

    میر تقی میر کی شاعری

    میران معنوں میں عشقیہ شاعرنہیں ہیں جن معنوں میں بعض نقاد یا نیم رومانی شاعر اردو کی ساری شاعری کوجنسیات تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ غالب نے بھی ایسی عشقیہ شاعری سے پناہ مانگی ہے اور لکھا ہے کہ عاشقانہ شاعری سے مجھے وہی بعد ہے جوکفر سے ایمان کو ہو سکتا ہے۔ (خطوط غالب، غلام رسول ...

    مزید پڑھیے

تمام

46 غزل (Ghazal)

    یاد آئے ہیں عہد جنوں کے کھوئے ہوئے دل دار بہت

    یاد آئے ہیں عہد جنوں کے کھوئے ہوئے دل دار بہت ان سے دور بسائی بستی جن سے ہمیں تھا پیار بہت ایک اک کر کے کھلی تھیں کلیاں ایک اک کر کے پھول گئے ایک اک کر کے ہم سے بچھڑے باغ جہاں میں یار بہت حسن کے جلوے عام ہیں لیکن ذوق نظارہ عام نہیں عشق بہت مشکل ہے لیکن عشق کے دعویدار بہت زخم کہو ...

    مزید پڑھیے

    عطر فردوس جواں میں یہ بسائے ہوئے ہونٹ

    عطر فردوس جواں میں یہ بسائے ہوئے ہونٹ خون‌ گلرنگ بہاراں میں نہائے ہوئے ہونٹ خود بخود آہ لرزتے ہوئے بوسوں کی طرح میرے ہونٹوں کی لطافت کو جگائے ہوئے ہونٹ دست فطرت کے تراشے ہوئے دو برگ گلاب دل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو بنائے ہوئے ہونٹ ظلم اور جبر کے احکام سے خاموش مگر مہر پیمان ...

    مزید پڑھیے

    سرد ہیں دل آتش روئے نگاراں چاہئے

    سرد ہیں دل آتش روئے نگاراں چاہئے شعلۂ رنگ بہار گل عذاراں چاہئے منزل عشق و جنوں کے فاصلے ہیں سر بکف ان کٹھن راہوں میں لطف دست یاراں چاہئے کٹ رہی ہے اور کٹ چکتی نہیں فصل خزاں تیز تر اک اور تیغ نو بہاراں چاہئے آج مے خانہ میں سحر چشم ساقی کے لیے التفات‌ چشم مست میگساراں چاہئے اس ...

    مزید پڑھیے

    ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں

    ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں رنگ‌ بر دوش گلستاں بہ کنار آتے ہیں چاک دل چاک جگر چاک گریباں والے مثل گل آتے ہیں مانند بہار آتے ہیں کوئی معشوق سزا وار غزل ہے شاید ہم غزل لے کے سوئے شہر نگار آتے ہیں کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں جا کے ہم کوچۂ قاتل میں پکار آتے ...

    مزید پڑھیے

    وفور شوق کی رنگیں حکایتیں مت پوچھ

    وفور شوق کی رنگیں حکایتیں مت پوچھ لبوں کا پیار نگہ کی شکایتیں مت پوچھ کسی نگاہ کی نس نس میں تیرتے نشتر وہ ابتدائے محبت کی راحتیں مت پوچھ وہ نیم شب وہ جواں حسن وہ وفور نیاز نگاہ و دل نے جو کی ہیں عبادتیں مت پوچھ ہجوم غم میں بھی جینا سکھا دیا ہم کو غم جہاں کی ہیں کیا کیا عنایتیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

40 نظم (Nazm)

    سر طور

    دل کو بے تاب رکھتی ہے اک آرزو کم ہے یہ وسعت عالم رنگ و بو لے چلی ہے کدھر پھر نئی جستجو تا بہ حد نظر اڑ کے جاتے ہیں ہم وہ جو حائل تھے راہوں میں شمس و قمر ہم سفر ان کو اپنا بناتے ہیں ہم ہے زمیں پردۂ لالہ و نسترن آسماں پردۂ کہکشاں ہے ابھی راز فطرت ہوا لاکھ ہم پر عیاں راز فطرت نہاں کا ...

    مزید پڑھیے

    پیراہن شرر

    کھڑا ہے کون یہ پیراہن شرر پہنے بدن ہے چور تو ماتھے سے خون جاری ہے زمانہ گزرا کہ فرہاد و قیس ختم ہوئے یہ کس پہ اہل جہاں حکم سنگ باری ہے یہاں تو کوئی بھی شیریں ادا نگار نہیں یہاں تو کوئی بھی لیلیٰ بدن بہار نہیں یہ کس کے نام پہ زخموں کی لالہ کاری ہے کوئی دوانہ ہے لیتا ہے سچ کا نام اب ...

    مزید پڑھیے

    حسین تر

    کل ایک تو ہوگی اور اک میں کوئی رقیب رفیق صورت کوئی رفیق رقیب ساماں مرے ترے درمیاں نہ ہوگا ہماری عمر رواں کی شبنم تری سیہ کاکلوں کی راتوں میں تار چاندی کے گوندھ دے گی ترے حسیں عارضوں کے رنگیں گلاب بیلے کے پھول ہوں گے شفق کا ہر رنگ غرق ہوگا لطیف و پر کیف چاندنی میں تری کتاب رخ جواں ...

    مزید پڑھیے

    ایک سوال

    معلوم نہیں ذہن کی پرواز کی زد میں سرسبز امیدوں کا چمن ہے کہ نہیں ہے لیکن یہ بتا وقت کا بہتا ہوا دھارا طوفان گر و کوہ شکن ہے کہ نہیں ہے سرمائے کے سمٹے ہوئے ہونٹوں کا تبسم مزدور کے چہرے کی تھکن ہے کہ نہیں وہ زیر افق صبح کی ہلکی سی سپیدی ڈھلتے ہوئے تاروں کا کفن ہے کہ نہیں ہے پیشانی ...

    مزید پڑھیے

    ترے پیار کا نام

    دل پہ جب ہوتی ہے یادوں کی سنہری بارش سارے بیتے ہوئے لمحوں کے کنول کھلتے ہیں پھیل جاتی ہے ترے حرف وفا کی خوشبو کوئی کہتا ہے مگر روح کی گہرائی سے شدت تشنہ لبی بھی ہے ترے پیار کا نام

    مزید پڑھیے

تمام

50 قطعہ (Qita)

تمام

3 افسانہ (Story)

    چہرو مانجھی

    ہوا بہت دھیمے سروں میں گا رہی تھی، دریا کا پانی آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے یہ نغمہ بڑا پرشور تھا لیکن اب اس کی تانیں مدھم پڑ چکی تھیں اور ایک نرم و لطیف گنگناہٹ باقی رہ گئی تھی۔ وہ لہریں جو پہلے ساحل سے جا کر ٹکرا رہی تھیں، اب اپنے سیال ہاتھوں سے تھکے ہوئے ساحل کا ...

    مزید پڑھیے

    لچھمی

    کارخانوں کی لمبی اور بھدی چمنیوں سے دھواں مزدوروں کی آہوں کی طرح باہر آرہا تھا اور چاروں طرف جلی ہوئی راکھ کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ یہ شہر کا وہ حصہ تھا جو مزدوروں اور صرف مزدوروں سے آباد تھا۔ مجھے ایک کارخانہ میں پندرہ روپیہ کی ایک اسامی مل گئی تھی، اس لیے میں بھی یہیں رہتا تھا۔ ...

    مزید پڑھیے

    آؤ ہم اس دنیا سے نکل چلیں

    آؤ ہم اور تم محبت کے شور انگیز دریا کو تیر کر دوسرے ساحل پر جا اتریں۔ اس ریتیلے ساحل کو جس پر ہم کھڑے ہوئے ہیں، سفید دیمک نے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آؤ۔۔۔ آؤ ہم اس دریا کو تیر چلیں جس کی گہرائیوں میں چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے نہنگ شکار کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ فضول سوال مت کرو کہ ...

    مزید پڑھیے