آ تیرے ہونٹ چوم لوں اے مژدۂ نجات
آ تیرے ہونٹ چوم لوں اے مژدۂ نجات صدیوں کے بعد ختم پہ آئی ستم کی رات ہر شاخ پر کھلے ہوئے رنگ شفق کے پھول ہر نخل کی کمر میں نسیم سحر کا ہات
ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں، نقاد، دانشور اور رسالہ ’گفتگو‘ کے مدیر، گیان پیٹھ انعام سے سرفراز، اردو شاعروں پر دستاویزی فلمیں بنائیں
One of the most celebrated progressive poets, literary critic, public intellectual and editor.Contemporary of Faiz Ahmad Faiz. Recipient of Gyanpeeth Award. Produced documentaries on Urdu poetry.
آ تیرے ہونٹ چوم لوں اے مژدۂ نجات صدیوں کے بعد ختم پہ آئی ستم کی رات ہر شاخ پر کھلے ہوئے رنگ شفق کے پھول ہر نخل کی کمر میں نسیم سحر کا ہات
ابھی پوشیدہ ہیں نظروں سے خزانے کتنے گوش انساں سے ہیں محروم ترانے کتنے ختم ہو سکتا نہیں سلسلۂ عمر دراز بطن تخلیق میں پنہاں ہیں زمانے کتنے
ان کو ملتا ہی نہیں ہے در مقصود کہیں جو صدف ہے وہی خالی نظر آتا ہے انہیں حلقۂ زلف ہو یا سرمۂ چشم خوباں حلقۂ دام خیالی نظر آتا ہے انہیں
یک بیک کیوں چمک اٹھی ہیں نگاہیں تیری اک کرنؔ پھوٹ رہی ہے تری پیشانی سے اور بھی تیز ہوئی جاتی ہے رخسار کی آگ جذبۂ شوق و محبت کی فراوانی سے
یہ حکومت کے پجاری ہیں یہ دولت کے غلام جو جہنم کی مصیبت سے ڈراتے ہیں مجھے خود تو دنیا میں بنا لیتے ہیں جنت اپنی خواب کھوئی ہوئی جنت کے دکھاتے ہیں مجھے
اک کرن ٹوٹ کے سو رنگ بکھر جاتے ہیں بکھرے جلوے بصد انداز سنور جاتے ہیں جاودانی ہے یہ دنیا کا تماشا جس میں نقش مٹتے ہیں تو مٹتے ہی ابھر آتے ہیں
شمع کی طرح پگھلتے ہوئے دل دیکھے ہیں اشک بن بن کے نکلتے ہوئے دل دیکھے ہیں تو نے دیکھے ہی نہیں گرمئ رخسار حیات میں نے اس آگ میں جلتے ہوئے دل دیکھے ہیں
جذبۂ شوق کی تکمیل نہیں ہو سکتی زندگی موت ہے احساس مسرت کے بغیر فقط اعصاب کی تسکین ہے توہین حیات صرف حیوان ہے انسان محبت کے بغیر
کہیں دریا کہیں وادی کہیں کہسار بنی کہیں شعلہ کہیں شبنم کہیں گل زار بنی خاک اک شکل سے سو شکل میں تبدیل ہوئی کہیں الماس کہیں گوہر شہوار بنی
حسن تیرا کبھی گل اور کبھی ماہتاب ہوا کبھی آئینہ کبھی مہر جہاں تاب ہوا دل بے تاب مرا ریگ رواں کی صورت تیرے دیدار کی شبنم سے نہ سیراب ہوا