بجھ گیا تیری محبت کا شرارہ تو کیا
بجھ گیا تیری محبت کا شرارہ تو کیا ڈوبتے دیکھے ہیں گردوں کے ستارے میں نے سرد ہوتے ہوئے دل برف کی قاشوں کی طرح منجمد ہوتے ہوئے دیکھے ہیں دھارے میں نے
ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں، نقاد، دانشور اور رسالہ ’گفتگو‘ کے مدیر، گیان پیٹھ انعام سے سرفراز، اردو شاعروں پر دستاویزی فلمیں بنائیں
One of the most celebrated progressive poets, literary critic, public intellectual and editor.Contemporary of Faiz Ahmad Faiz. Recipient of Gyanpeeth Award. Produced documentaries on Urdu poetry.
بجھ گیا تیری محبت کا شرارہ تو کیا ڈوبتے دیکھے ہیں گردوں کے ستارے میں نے سرد ہوتے ہوئے دل برف کی قاشوں کی طرح منجمد ہوتے ہوئے دیکھے ہیں دھارے میں نے
آدمی لاکھ ہو مایوس مگر مثل نسیم رقص کرتا ہے تمناؤں کے گلزاروں میں راستے وادیٔ و صحرا میں بنا لیتے ہیں چشمے رک کر نہیں رہ جاتے ہیں کہساروں میں
ماں کی آغوش میں ہنستا ہوا اک طفل جمیل جس طرح ذہن ازل میں ہو ابد کی تخیئل دیکھ لیں وہ جو سمجھتے ہیں کہ فانی ہے حیات زندگانی کے طرب ناک تسلسل کی دلیل
ابھی جواں ہے غم زندگی کا ہر لمحہ دھڑک رہا ہے دل بے قرار کی صورت حسین و شوخ ہے مستقبل بشر کا خیال کسی تبسم بے اختیار کی صورت
تو نے خود تلخ بنا رکھی ہے دنیا اپنی زندگی کتنی حسیں ہے تجھے معلوم نہیں ہے جو گہری سی شکن وقت کی پیشانی پر تیری ہی چیں بہ جبیں ہے تجھے معلوم نہیں
کبھی پہلو میں سمندر کے تڑپ اٹھتی ہیں اور کبھی ریت کے سینے سے لپٹ جاتی ہیں ان کو آتا نہیں آغوش محبت میں قرار موجیں منہ چوم کے ساحل کا پلٹ جاتی ہیں
ظلم اور جہل پر اصرار کرو گے کب تک عقل اور فہم سے پیکار کرو گے کب تک کب تلک عظمت افلاک کے گن گاؤ گے عظمت خاک سے انکار کرو گے کب تک
آزمائش ہے تری جرات رندانہ کی آب ہے موج مے ناب میں تلواروں کی چشم ساقی میں ہے اب ہوش و خرد کا پیغام آج پرسش نہیں بہکے ہوئے میخاروں کی
گرچہ ہے مشت غبار آدم و حوا کا وجود ان کی رفعت پہ برستے ہیں ستاروں کے سجود لالہ و گل تو فقط نقش قدم ہیں اس کے اصل میں خاک کی معراج ہے انساں کی نمود
دیکھو تو تیرہ و تاریک فضا کا عالم کس قدر درہم و برہم ہے ستاروں کا نظام تو چمکتا ہے افق پر ابھی مانند ہلال آسماں وقت کا ہے منتظر ماہ تمام