نکہت و رنگ کا طوفان امنڈ آیا ہے
نکہت و رنگ کا طوفان امنڈ آیا ہے آگ سی لگ گئی یورپ کے سمن زاروں میں اس طرف سے بھی گزر قافلۂ صبح بہار ایک بھی پھول نہیں میرے چمن زاروں میں
ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں، نقاد، دانشور اور رسالہ ’گفتگو‘ کے مدیر، گیان پیٹھ انعام سے سرفراز، اردو شاعروں پر دستاویزی فلمیں بنائیں
One of the most celebrated progressive poets, literary critic, public intellectual and editor.Contemporary of Faiz Ahmad Faiz. Recipient of Gyanpeeth Award. Produced documentaries on Urdu poetry.
نکہت و رنگ کا طوفان امنڈ آیا ہے آگ سی لگ گئی یورپ کے سمن زاروں میں اس طرف سے بھی گزر قافلۂ صبح بہار ایک بھی پھول نہیں میرے چمن زاروں میں
جنت و کوثر و افرشتہ و حور و جبریل مانتا ہوں تری تخیئل کی رعنائی کو لیکن اک عمر سے اجڑی ہوئی دنیا کی زمیں ڈھونڈتی ہے ترے ذوق چمن آرائی کو
گرد نفرت سے بچا لیتا ہوں دامن اپنا میں محبت کا پجاری ہوں مسرت کا ندیم لالہ و گل کا کیا کرتی ہے گلشن میں طواف پھر بھی کانٹوں سے الجھتا نہیں دامان نسیم
موت کی آگ میں تپ تپ کے نکھرتی ہے حیات ڈوب کر جنگ کے دریا میں ابھرتی ہے حیات زلف کی طرح بگڑتی ہے سنورتی ہے حیات وقت کے دوش بلوریں پہ بکھرتی ہے حیات
نسیم صبح تصور یہ کس طرف سے چلی کہ میرے دل میں چمن درکنار آتی ہے کہیں ملے تو مرے گل بدن سے کہہ دینا ترے خیال سے بوئے بہار آتی ہے
جس طرح خواب کے ہلکے سے دھندلکے میں کوئی چاند تاروں کی طرح نور سا برساتا ہے ہاں یونہی میرے تصور کے گلستانوں میں پھول کھل جاتے ہیں جب تیرا خیال آتا ہے
پھانس کی طرح ہر اک سانس کھٹکتی ہے مجھے نغمے کیوں گھٹ کے رہے جاتے ہیں دل ہی دل میں راز داں اپنے نظر آتے ہیں ہر سمت مگر پھر بھی تنہائی کا احساس بھری محفل میں
ان کے کیا رنگ تھے اب یاد نہیں ہے مجھ کو کتنے آنچل مری تخیئل میں لہرائے ہیں ہائے بھولے ہوئے چہروں کے دل آویز نقوش جھلملاتے ہوئے اشکوں میں جھلک آئے ہیں
موت کو جانتے ہیں اصل حیات ابدی زندگانی کو مگر خوار و زبوں کہتے ہیں ''اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو'' جو زمانے کو تصور کا فسوں کہتے ہیں
متحد ہو کے اٹھے ظلم کے قدموں سے عوام سارے گم گشتہ عزیزان جہاں مل ہی گئے لاکھ گلشن میں بچھائے تھے خزاں نے کانٹے قدم باد بہار آئے تو گل کھل ہی گئے