حسن ہی حسن ہے فطرت کے صنم خانے میں
حسن ہی حسن ہے فطرت کے صنم خانے میں نور ہی نور ہے اس خاک کے کاشانے میں رات آتی ہے ستاروں کی ردا اوڑھے ہوئے صبح مے پیتی ہے خورشید کے پیمانے میں
ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں، نقاد، دانشور اور رسالہ ’گفتگو‘ کے مدیر، گیان پیٹھ انعام سے سرفراز، اردو شاعروں پر دستاویزی فلمیں بنائیں
One of the most celebrated progressive poets, literary critic, public intellectual and editor.Contemporary of Faiz Ahmad Faiz. Recipient of Gyanpeeth Award. Produced documentaries on Urdu poetry.
حسن ہی حسن ہے فطرت کے صنم خانے میں نور ہی نور ہے اس خاک کے کاشانے میں رات آتی ہے ستاروں کی ردا اوڑھے ہوئے صبح مے پیتی ہے خورشید کے پیمانے میں
عطا ہوئی ہے مرے دل کی سلطنت تجھ کو حریم جاں میں اتر شمع دلبری لے کر گزر وفا کے شبستان رنگ و نکہت میں مزاج آدمی و شیوۂ پری لے کر
سالہا سال فضاؤں میں شرربار رہی ایک پر سوز ہیولیٰ میں گرفتار رہی خاک ہر چند کہ تھی پست و حقیر و نادار اپنی فطرت سے مگر بر سر پیکار رہی
تبسم لب ساقی چمن کھلا ہی گیا نشاط فصل بہاراں دلوں پہ چھا ہی گیا کہو حکایت گیسو فسانۂ قد یار شکست دار و رسن کا زمانہ آ ہی گیا
عشق اک جنس گراں مایہ ہے اک دولت ہے یہ مگر عمر کا حاصل تو نہیں ہے اے دوست منزلیں اور بھی ہیں اس سے حسیں اس سے جمیل وصل کچھ آخری منزل تو نہیں ہے اے دوست
یہ تو ہیں چند ہی جلوے جو چھلک آئے ہیں رنگ ہیں اور مرے دل کے گلستاں میں ابھی میرے آغوش تخیل میں ہیں لاکھوں صبحیں آفتاب اور بھی ہیں میرے گریباں میں ابھی
کس قدر نور سحر دیکھ کے شرماتے ہیں شب ہوئی ختم ستاروں کو حجاب آتا ہے بام گردوں پہ ہے اب نیر اعظم کا جلوس کوئی معشوق بر افگندہ نقاب آتا ہے
شیشۂ دل کو اگر ٹھیس کوئی لگتی ہے آنسو بے ساختہ آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں کچھ اشک جو ہنگام نشاط مسکراتی ہوئی پلکوں سے ٹپک پڑتے ہیں
ذہن و جذبات و اشارات و کنایات بنی موت و الفاظ و حکایات و روایات بنی ''خاک'' جب صورت انساں میں نمودار ہوئی زمزمے وید کے قرآن کی آیات بنی
چشم بینا میں ستاروں کی حقیقت کیا ہے عالم خاک کا جو ذرہ ہے مہ پارہ ہے آسمانوں میں بھٹکتی ہوئی روحوں سے کہو یہ زمیں خود بھی چمکتا ہوا سیارہ ہے