Akhtar Bastavi

اختر بستوی

شاعر اور نثر نگار، اپنے قطعات اور طویل نظموں کے لیے معروف

Poet and prose writer, known for his Qitas and long poems

اختر بستوی کی نظم

    پانی

    پانی سے ہویدا ہوتی ہے دنیا میں خدا کی رحمت بھی پانی میں دکھائی دیتی ہے تصویر عذاب و لعنت بھی پانی کی بدولت ملتی ہے انساں کو غذا کی نعمت بھی سیلاب کی صورت میں پانی لاتا ہے جہاں پر آفت بھی اک جھیل کے گہرے پانی پر اس وقت جمی ہے میری نظر افکار ہیں ڈانوا ڈول مرے جذبات ہیں میرے زیر و ...

    مزید پڑھیے

    حاصل مطالعہ

    وہ جنہیں مجھ سے محبت بھی ہے ہمدردی بھی ہے میرے علمی شوق کو کہتے ہیں بیکار و فضول پوچھتے ہیں وہ مجھے کیوں ان کتابوں سے ہے عشق ہو نہ مالی منفعت کا جن کے پڑھنے سے حصول جانتا ہوں میں بھی مالی فائدہ ان سے نہیں پھر بھی کرتا ہوں دل و جاں سے کتابوں کو پسند سرفرازی دے نہیں سکتی وہ دولت سے ...

    مزید پڑھیے

    من کا اندھیرا

    انسان کو بھگوان نظر آئے گا کیوں کر روشن کے لیے نینوں میں شکتی ہی نہیں ہے بھکتوں کی نگاہوں سے وہ چھپتا نہیں لیکن افسوس کہ سنسار میں بھکتی ہی نہیں ہے ہونٹوں پہ ہیں نروان کی اور گیان کی باتیں سینے کی گپھاؤں میں ہے پاپوں کا بسیرا پوجا کے لیے سب نے جلا رکھے ہیں دیپک مندر میں اجالا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اندھا

    میرے احساسات کی گہرائیوں میں ہے نہاں بے توجہ قبر کی مانند اک اندھا کنواں اس کی تہ میں کوئی قطرہ آب شیریں کا نہیں فیض اس سے روح تشنہ کو کبھی پہنچا نہیں گاہے گاہے گونجتی ہے اس میں اپنی ہی صدا جس سے خود مجھ پر ہوا کرتا ہے طاری خوف سا حوصلوں کو نیم جاں کرتی ہے ہے جس بازگشت دور تر ہوتا ...

    مزید پڑھیے

    موت

    زندگی کو اک جوے کی طرح کھیلا عمر بھر اور کوئی بازی کسی منزل پہ بھی ہارا نہیں داؤں جتنے بھی لگائے سب میں کچھ پاتا گیا کیا ہوا کرتا ہے کھونا یہ کبھی جانا نہیں مل گیا آخر میں لیکن ایک ایسا بھی حریف حیف جس سے ہار بیٹھا میں خود اپنا ہی وجود چال کچھ ایسی چلی اس نے کہ سب کچھ لٹ گیا ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    گناہ کا ماتم

    دل پہ جو تاریک سا اک عکس ہے نفس کے عفریت کا سایا نہیں کر چکا ہے وار مجھ پر ایک بار اب وہ اس نیت سے پھر آیا نہیں پھنس کے اس کے پنجۂ سفاک میں مجھ سے جو سرزد ہوا تھا اک گناہ آج آیا ہے وہی دل کے قریب بہر ماتم اوڑھ کر رخت سیاہ

    مزید پڑھیے

    مٹی

    مبارک چیز ہے نعمت ہے مٹی کہ اس سے آدمی نے جسم پایا بنائے رزق ہے دولت ہے مٹی کہ اس نے دانۂ گندم اگایا جہاں میں باعث رحمت ہے مٹی کہ انسانوں نے اس سے گھر بنایا مگر اک دن یہ مٹی مثل اژدر نگل جائے گی ہم کو تم کو اخترؔ

    مزید پڑھیے

    قربت اور دوری

    جذبۂ مذہب سیاست کا خروش علم کی جہد مسلسل فن کا جوش آدمی کی سمت ہے سب کا جھکاؤ سب کو ہے انساں سے بنیادی لگاؤ بات یہ ان سب کے ہے مد نظر آدمی سے ہوں سدا نزدیک تر سب کو قرب انسان کا منظور ہے آدمی ہی آدمی سے دور ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2