سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو
سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو ہے درد دل کی شرط کہ لب پر فغاں نہ ہو پھر ہو رہا ہے شور صلائے نبرد عشق ہاں اے دہان زخم جواب الاماں نہ ہو بازار جاں فروش میں سودا نہ ہو یہ کیا گاہک ملے تو جنس تو یہ بھی گراں نہ ہو اس درد لا جواب کی کیونکر کروں دوا وہ حال دل نشیں بھی تو مجھ سے بیاں ...