مجبوری
سوچنے سے فائدہ کچھ بھی نہیں اس حقیقت سے ہوں میں بھی باخبر جانتا ہوں سوچنا ہے اک عذاب زندگی ہوتی ہے اس سے تلخ تر میں مگر مجبور ہوں لاچار ہوں اس سے ممکن ہی نہیں مجھ کو فراغ لاکھ میں کوشش کروں لیکن کبھی رہ نہیں سکتا ہے بے سوچے دماغ
شاعر اور نثر نگار، اپنے قطعات اور طویل نظموں کے لیے معروف
Poet and prose writer, known for his Qitas and long poems
سوچنے سے فائدہ کچھ بھی نہیں اس حقیقت سے ہوں میں بھی باخبر جانتا ہوں سوچنا ہے اک عذاب زندگی ہوتی ہے اس سے تلخ تر میں مگر مجبور ہوں لاچار ہوں اس سے ممکن ہی نہیں مجھ کو فراغ لاکھ میں کوشش کروں لیکن کبھی رہ نہیں سکتا ہے بے سوچے دماغ
مرکوز کس لئے ہے تمہاری نظر بھلا آشفتگان دل کے دریدہ لباس پر دیکھو تو اہل حکمت و دانش کا اضطراب تسخیر کائنات کی ناکام آس پر صحرا کی تشنگی کے نظارے میں کیوں ہو گم ڈالو ذرا نگاہ سمندر کی پیاس پر
بے ثباتی زیست کی تسلیم کرتا ہوں مگر کیا ضروری ہے کہ بے مقصد بھی ہو جائے حیات کوئی نسب العین ہو گر آدمی کے سامنے ہستیٔ ناچیز بھی ثابت ہو روح کائنات اک حقیقت مجھ پہ روشن ہے جو کرتا ہوں بیاں جبکہ میں اے دوستو مرد جہاں دیدہ نہیں بے ارادہ کیوں پھرے انسان دشت دہر میں زندگی جو کچھ بھی ہو ...
جدھر نظریں اٹھاتا ہوں ادھر چہرے ہی چہرے ہیں مگر ان سب میں اک بے چہرگی سی دیکھتا ہوں میں کوئی صورت بنا کرتی ہے جس سے شکل انسانی ہر اک چہرے کو اس خوبی سے عاری دیکھتا ہوں میں لقب چہرے کا زیبا ہے انہیں کے واسطے یارو جو احساسات اور جذبات کی تفسیر ہوتے ہیں نہ مانو فیصلہ میرا خود اپنے ...
احساس کے ساحل پہ بہت دیر سے گم صم میں گیان کی ارتھی کو لیے بیٹھا ہوں یارو طے کر کے یہ آیا تھا کہ پھونکوں گا اسے آج اور اب بھی یہی عزم کئے بیٹھا ہوں یارو لیکن کوئی تدبیر سمجھ ہی نہیں آتی کس چیز پہ رکھ کر میں بھلا اس کو جلاؤں کہتی ہیں تمنائیں کہ چھوڑیں گی نہ دل کو پھر اس کے لیے دل کی ...
لاکھ شاداب ہو آباد ہو دنیا کا چمن دل کی قسمت میں ہے تنہائی کے کانٹے کی چبھن بے سہارا یہ ہمیشہ سے رہا ہے یارو اس نے ہر درد اکیلے ہی سہا ہے یارو صرف اک راز جو سینے میں چھپا بیٹھا ہے دوست بن کر اسے تسکین دیا کرتا ہے سوچتا ہوں کہ میں وہ راز بھی افشا کر دوں دل کو اب دہر میں بالکل ہی اکیلا ...
در حقیقت خامشی معراج ہے گفتار کی اس سے بہتر کوئی بھی صورت نہیں اظہار کی ہو گئی ہے نطق کی ہر ہر ادا جب بے اثر میں نے دیکھا ہے طلسم خامشی کو کارگر خامشی ایسے بھی لمحوں کی کہانی کہہ گئی جن میں گویائی پشیمانی اٹھا کر رہ گئی
بیتے ہوئے دنوں کی ہیں یادیں بھی اک عذاب رہتا ہے ذہن و قلب پہ ان کا سدا عتاب ادراک و فہم کو بھی یہ ڈستی ہیں دم بدم جذبات کے لیے بھی نہیں ناگنوں سے کم چاہا تھا شاعری تو نہ مسموم ہو مگر یادوں کا زہر اس پہ بھی اب کر گیا اثر
دیوار میں روزن تو ہوا کرتے ہیں لیکن دل میں نہیں ہوتا کوئی اس دور میں روزن پڑتی ہے نظر سب کی تماشوں پہ جہاں کے رہتا ہے نگاہوں سے چھپا سینے کا درپن دیتی ہے ہر اک چیز زمانے کی دکھائی ہوتا نہیں خود اپنا ہی دیدار میسر باہر کے مناظر میں ہیں الجھی ہوئی نظریں آنکھوں سے ہیں اوجھل وہ نظارے ...
جس کلی سے صحن گلشن تھا سجا اس کا رس آوارہ بھنورا پی گیا جو کلی تھی زینت بزم نشاط ہو گئی وہ نذر اہل انبساط ہے بہ ہر صورت ہوس کا گر عذاب کیوں بھلا کلیوں پہ آتا ہے شباب