Akhtar Bastavi

اختر بستوی

شاعر اور نثر نگار، اپنے قطعات اور طویل نظموں کے لیے معروف

Poet and prose writer, known for his Qitas and long poems

اختر بستوی کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو

    سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو ہے درد دل کی شرط کہ لب پر فغاں نہ ہو پھر ہو رہا ہے شور صلائے نبرد عشق ہاں اے دہان زخم جواب الاماں نہ ہو بازار جاں فروش میں سودا نہ ہو یہ کیا گاہک ملے تو جنس تو یہ بھی گراں نہ ہو اس درد لا جواب کی کیونکر کروں دوا وہ حال دل نشیں بھی تو مجھ سے بیاں ...

    مزید پڑھیے

    ہے رشک کیوں یہ ہم کو سر دار دیکھ کر

    ہے رشک کیوں یہ ہم کو سر دار دیکھ کر دینے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر خود کردۂ ازل سے تجلی طور کے جھپکے کی آنکھ کیا تری تلوار دیکھ کر آساں پسندیوں سے ہیں بیزار اہل عشق چھانٹا یہ مرحلہ بھی ہے دشوار دیکھ کر بن جائے گا یہ رشتۂ تسبیح ایک دن دھوکا نہ کھائیو کہیں زنار دیکھ کر اس ...

    مزید پڑھیے

    لاکھ حربے سہی ہر وضع کے شیطان کے پاس

    لاکھ حربے سہی ہر وضع کے شیطان کے پاس ڈھال ایمان کی موجود ہو انسان کے پاس ملک سمجھو اسے پامال بجا ہے اک دین اب تو بس اک یہی دولت ہے مسلمان کے پاس لگتے ہی تیر تمہارا گئی یوں جان نکل بیٹھ کر جاتی گھڑی دو گھڑی مہمان کے پاس آدمیت ہی تو بنیاد ہے ہر خوبی کی ہو نہ یہ بھی تو دھرا کیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    خود فراموش جو پایا ہے مجھے دنیا نے

    خود فراموش جو پایا ہے مجھے دنیا نے میرے ہاتھوں سے بھی لوٹا ہے مجھے دنیا نے دل تو بے دام بکا ذہن کی قیمت نہ لگی کیسے بازار میں بیچا ہے مجھے دنیا نے وقف جذبات نہ ہونے کی سزا دی ہے عجب آتش سرد میں پھونکا ہے مجھے دنیا نے ہم سفر مجھ کو بنانے سے گریزاں ہے مگر ہر نئے موڑ پہ ڈھونڈا ہے ...

    مزید پڑھیے

    چاہو تو مرا دکھ مرا آزار نہ سمجھو

    چاہو تو مرا دکھ مرا آزار نہ سمجھو لیکن مرے خوابوں کو گنہ گار نہ سمجھو آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو آنگن کے سکوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی کہتے ہو جسے گھر اسے بازار نہ سمجھو اجڑے ہوئے طاقوں پہ جمی گرد کی تہہ میں روپوش ہیں کس قسم کے اسرار نہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

18 نظم (Nazm)

    مجبوری

    سوچنے سے فائدہ کچھ بھی نہیں اس حقیقت سے ہوں میں بھی باخبر جانتا ہوں سوچنا ہے اک عذاب زندگی ہوتی ہے اس سے تلخ تر میں مگر مجبور ہوں لاچار ہوں اس سے ممکن ہی نہیں مجھ کو فراغ لاکھ میں کوشش کروں لیکن کبھی رہ نہیں سکتا ہے بے سوچے دماغ

    مزید پڑھیے

    سمندر کی پیاس

    مرکوز کس لئے ہے تمہاری نظر بھلا آشفتگان دل کے دریدہ لباس پر دیکھو تو اہل حکمت و دانش کا اضطراب تسخیر کائنات کی ناکام آس پر صحرا کی تشنگی کے نظارے میں کیوں ہو گم ڈالو ذرا نگاہ سمندر کی پیاس پر

    مزید پڑھیے

    مقصد حیات

    بے ثباتی زیست کی تسلیم کرتا ہوں مگر کیا ضروری ہے کہ بے مقصد بھی ہو جائے حیات کوئی نسب العین ہو گر آدمی کے سامنے ہستیٔ ناچیز بھی ثابت ہو روح کائنات اک حقیقت مجھ پہ روشن ہے جو کرتا ہوں بیاں جبکہ میں اے دوستو مرد جہاں دیدہ نہیں بے ارادہ کیوں پھرے انسان دشت دہر میں زندگی جو کچھ بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    چہروں کی بے چہرگی

    جدھر نظریں اٹھاتا ہوں ادھر چہرے ہی چہرے ہیں مگر ان سب میں اک بے چہرگی سی دیکھتا ہوں میں کوئی صورت بنا کرتی ہے جس سے شکل انسانی ہر اک چہرے کو اس خوبی سے عاری دیکھتا ہوں میں لقب چہرے کا زیبا ہے انہیں کے واسطے یارو جو احساسات اور جذبات کی تفسیر ہوتے ہیں نہ مانو فیصلہ میرا خود اپنے ...

    مزید پڑھیے

    گیان کی چتا

    احساس کے ساحل پہ بہت دیر سے گم صم میں گیان کی ارتھی کو لیے بیٹھا ہوں یارو طے کر کے یہ آیا تھا کہ پھونکوں گا اسے آج اور اب بھی یہی عزم کئے بیٹھا ہوں یارو لیکن کوئی تدبیر سمجھ ہی نہیں آتی کس چیز پہ رکھ کر میں بھلا اس کو جلاؤں کہتی ہیں تمنائیں کہ چھوڑیں گی نہ دل کو پھر اس کے لیے دل کی ...

    مزید پڑھیے

تمام

1 قطعہ (Qita)