کھڑکھڑاتی ڈول وہ دھم سے کنویں میں گر گئی
کھڑکھڑاتی ڈول وہ دھم سے کنویں میں گر گئی دم بخود پنہاریاں کنگن گھماتی رہ گئیں وہ کنویں میں ایک چرواہا اترنے کو بڑھا وہ صبوحی کی نگاہیں مسکراتی رہ گئیں
پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر
Most outstanding Pakistani, Progressive poet. Also counted among leading fiction-writers. Edited an important literary magazine Funoon.
کھڑکھڑاتی ڈول وہ دھم سے کنویں میں گر گئی دم بخود پنہاریاں کنگن گھماتی رہ گئیں وہ کنویں میں ایک چرواہا اترنے کو بڑھا وہ صبوحی کی نگاہیں مسکراتی رہ گئیں
بات کہنے کا جو ڈھب ہو تو ہزاروں باتیں ایک ہی بات میں کہہ جاتے ہیں کہنے والے لیکن ان کے لیے ہر لفظ کا مفہوم ہے ایک کتنے بے درد ہیں اس شہر کے رہنے والے
اداس چاند نے بدلی کی آڑ میں ہو کر کنارے ملگجے بادل کے کر دیئے روشن شب فراق میں جیسے تصور رخ دوست دل حزیں کے اندھیرے میں روشنی کی کرن
داور حشر مجھے تیری قسم عمر بھر میں نے عبادت کی ہے تو مرا نامۂ اعمال تو دیکھ میں نے انساں سے محبت کی ہے
گائیں ڈکراتی ہوئی پگڈنڈیوں پر آ گئیں مرلیاں ہاتھوں میں لے کر مست چرواہے بڑھے بیریوں کے دھندلے سایوں میں کھڑا ہوں منتظر ایک لڑکی کو گزرنا ہے یہاں سے دن چڑھے
مری شکست پہ اک پرتو جمال تو ہے میں کیوں نہ عظمت افتادگی پہ اتراؤں تجھی سے ہے مری آسودہ خاطری کا بھرم ترے غموں کا خزانہ چھنے تو لٹ جاؤں
کئی برس سے ہے ویران مرغزار شباب اب التفات کے بادل برس رہے ہیں کیوں؟ یہ بوندیاں، یہ پھواریں، یہ رس بھرے جھونکے توقعات کی نعشوں کو ڈس رہے ہیں کیوں؟
گرتی ہوئی بوندیں ہیں کہ پارے کی لکیریں بادل ہے کہ بستی پہ گجردم کا دھواں ہے مغموم پپیہا ہے کہ بھٹکا ہوا شاعر جو پوچھتا پھرتا ہے کہاں ہے تو کہاں ہے
ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک جو کچھ بھی ہو آدم کا نشان کف پا ہو ممکن ہے کہ جنت کی بلندی سے اتر کر انسان کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہو
باجرے کی فصل سے چڑیاں اڑانے کے لئے ایک دوشیزہ کھڑی ہے کنکروں کے ڈھیر پر وہ جھکی وہ ایک پتھر سنسنایا، وہ گرا کٹ گئے ہیں اس کے جھٹکے سے مرے قلب و جگر