کبھی نہ پلٹے گی بیتی ہوئی گھڑی لیکن
کبھی نہ پلٹے گی بیتی ہوئی گھڑی لیکن تصورات سے دل خوش ہیں نوع انساں کے وہ کس کے ہاتھ کے ہیں منتظر خدا جانے لرزتے رہتے ہیں پردے حریم جاناں کے
پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر
Most outstanding Pakistani, Progressive poet. Also counted among leading fiction-writers. Edited an important literary magazine Funoon.
کبھی نہ پلٹے گی بیتی ہوئی گھڑی لیکن تصورات سے دل خوش ہیں نوع انساں کے وہ کس کے ہاتھ کے ہیں منتظر خدا جانے لرزتے رہتے ہیں پردے حریم جاناں کے
آنکھ کھل جاتی ہے جب رات کو سوتے سوتے کتنی سونی نظر آتی ہے گزر گاہ حیات ذہن و وجدان میں یوں فاصلے تن جاتے ہیں شام کی بات بھی لگتی ہے بہت دور کی بات
رنگ جب اپنی حقیقت سے شناسا ہو جائے لالہ زاروں میں بھڑکتا ہے الاؤ بن کر رقص جب دائرۂ فن سے ابل پڑتا ہے دندناتا ہے سمندر کا بہاؤ بن کر
پو پھٹے رینگتے جھرنے پہ یہ کون آیا ہے بال بکھرے ہوئے لپٹے ہوئے خواب آنکھوں سے لوٹ لیں تشنگئ زیست نے نیندیں ورنہ یوں پیاپے نہ برستی مئے ناب آنکھوں سے
ریشۂ گل کو رگ سنگ بنانے والو بوئے گل سنگ سے ٹپکے گی شرارے بن کر تم کو معلوم تو ہوگا کہ اجالا دن کا سینۂ شب میں دھڑکتا ہے ستارے بن کر
گورے ہاتھوں میں یہ دھانی چوڑیوں کی آن بان کالی زلفوں پر گلابی اوڑھنی کی آب و تاب ہر قدم پر نقرئی خلخال کے نغموں کی لہر تیرے پیکر میں مجسم ہو گئی روح شباب
عید کا دن ہے فضا میں گونجتے ہیں قہقہے جھولتی ہیں لڑکیاں جھولوں پہ گاتی ہیں ملہار میرا جھولا جس سے ہیں لپٹے ہوئے سرسوں کے پھول دیکھتا ہے ایک نکڑ کو لپک کر بار بار
آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا لڑکیاں گاگریں بھرتی ہوئی گھبرا سی گئیں اوڑھنی سر پہ جما کر وہ صبوحی اٹھی انکھڑیاں چار ہوئیں جھک گئیں شرما سی گئیں
گلوں میں رنگ تو تھا رنگ میں جلن تو نہ تھی مہک میں کیف تو تھا کیف میں جنوں تو نہ تھا بدل دیا ترے غم نے بہار کا کردار کہ اب سے قبل چمن کا مزاج یوں تو نہ تھا
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا اتنا سیال ہے یہ پل کہ گماں ہوتا ہے میں ترے جسم کو چھو لوں تو پگھل جائے گا