خموش جھیل پہ کیوں ڈولنے لگا بجرا
خموش جھیل پہ کیوں ڈولنے لگا بجرا ہوائیں تند نہیں ہیں کنارہ دور نہیں بھنور کا ذکر نہ کر زندگی کا لطف نہ چھین مجھے ابھی کسی انجام کا شعور نہیں
پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر
Most outstanding Pakistani, Progressive poet. Also counted among leading fiction-writers. Edited an important literary magazine Funoon.
خموش جھیل پہ کیوں ڈولنے لگا بجرا ہوائیں تند نہیں ہیں کنارہ دور نہیں بھنور کا ذکر نہ کر زندگی کا لطف نہ چھین مجھے ابھی کسی انجام کا شعور نہیں
آنسوؤں میں بھگو کے آنکھوں کو دیکھتے ہو تو خاک دیکھو گے آئنے کو ذرا سا نم کر دو پیرہن چاک چاک دیکھو گے
رخسار ہیں یا عکس ہے برگ گل تر کا چاندی کا یہ جھومر ہے کہ تارا ہے سحر کا یہ آپ ہیں یا شعبدۂ خواب جوانی یہ رات حقیقت ہے کہ دھوکا ہے نظر کا
وہ دور جھیل کے پانی میں تیرتا ہے چاند پہاڑیوں کے اندھیروں پہ نور چھانے لگا وہ ایک کھوہ میں اک بد نصیب چرواہا بھگو کے آنسوؤں میں ایک گیت گانے لگا
برس کے چھٹ گئے بادل ہوائیں گاتی ہیں گرجتے نالوں میں چرواہیاں نہاتی ہیں وہ نیلی دھوئی ہوئی گھاٹیوں سے دو گونجیں کسی کو دکھ بھری آواز میں بلاتی ہیں
وہ پانی بھرنے چلی اک جوان پنساری وہ گورے ٹخنوں پہ پازیب چھنچھناتی ہے غضب غضب کہ مرے دل کی سرد راکھ سے پھر کسی کی تپتی جوانی کی آنچ آتی ہے
یہ فضا، یہ گھاٹیاں، یہ بدلیاں یہ بوندیاں کاش اس بھیگے ہوئے پربت سے لہراتی ہوئی دھیرے دھیرے ناچتی آئے صبوحی اور پھر گھل کے کھو جائے کہیں میری غزل گاتی ہوئی
جسے ہر شعر پر دیتے تھے تم داد وہی رنگیں نوا خونیں نوا ہے اب ان رنگوں کے نیچے دھیرے دھیرے لہو کا ایک دریا بہہ رہا ہے
گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں کسی نے درد بھرے لے میں ماہیا گایا مجھے کسی سے محبت نہیں مگر اے دل یہ کیا ہوا کہ تو بے اختیار بھر آیا
لڑکیاں چنتی ہیں گیہوں کی سنہری بالیاں کاٹتے ہیں گھاس مینڈھوں پر سے بانکے نوجواں کھوئی کھوئی ایک لڑکی بیریوں کی چھاؤں میں دیکھتی ہے گھاس پر لیٹی ہوئی جانے کہاں