جب چٹانوں سے لپٹتا ہے سمندر کا شباب
جب چٹانوں سے لپٹتا ہے سمندر کا شباب دور تک موج کے رونے کی صدا آتی ہے یک بیک پھر یہی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی موج اک نئی موج میں ڈھلنے کو پلٹ جاتی ہے
پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر
Most outstanding Pakistani, Progressive poet. Also counted among leading fiction-writers. Edited an important literary magazine Funoon.
جب چٹانوں سے لپٹتا ہے سمندر کا شباب دور تک موج کے رونے کی صدا آتی ہے یک بیک پھر یہی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی موج اک نئی موج میں ڈھلنے کو پلٹ جاتی ہے
تری زلفیں ہیں کہ ساون کی گھٹا چھائی ہے تیرے عارض ہیں کہ پھولوں کو ہنسی آئی ہے یہ ترا جسم ہے یا صبح کی شہزادی ہے ظلمت شب سے الجھتی ہوئی انگڑائی ہے
وہ تار کے اک کھمبے پہ بیٹھی ہے ابابیل اڑنے کے لئے دیر سے پر تول رہی ہے جس طرح مرے عشق کی ٹوٹی ہوئی کشتی امید کے ساحل پہ کھڑی ڈول رہی ہے
وہ سبز کھیت کے اس پار ایک چٹان کے پاس کڑکتی دھوپ میں بیٹھی ہے ایک چرواہی پرے چٹان سے پگڈنڈیوں کے جالوں میں بھٹکتا پھرتا ہے وہ ایک نوجواں راہی
میں نے اس دشت کی وسعت میں شبستاں پائے اس کے ٹیلوں پہ مجھے قصر نظر آئے ہیں ان ببولوں میں کسی ساز کے پردے لرزے ان کھجوروں پہ مرے راز ابھر آئے ہیں
رنگ حرف صدا کی دنیا میں زندگی قتل ہو گئی ہے کہیں مر گیا لفظ اڑ گیا مفہوم اور آواز کھو گئی ہے کہیں
حکمت اہل مدرسہ کا غرور میری وحشت سے دب کے ہار گیا تیرا گھبرا کے مسکرا دینا زندگی کی نقاب اتار گیا
یوں مرے ذہن میں لرزاں ہے ترا عکس جمیل دل مایوس میں یوں گاہے ابھرتی ہے آس ٹمٹماتا ہے وہ نوخیز ستارا جیسے دور مسجد کے اس ابھرے ہوئے مینار کے پاس
بوڑھے ماں باپ بلکتے ہوئے گھر کو پلٹے چونک اٹھے ہیں وہ شہنائی بجانے والے اف بچھڑتی ہوئی دوشیزہ کے نالوں کا اثر ڈولتے جاتے ہیں ڈولی کے اٹھانے والے
ذکر مریخ و مشتری کے ساتھ اپنی دھرتی کی بات بھی تو کرو موت کا احترام برحق ہے احترام حیات بھی تو کرو