Ahmad Nadeem Qasmi

احمد ندیم قاسمی

پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر

Most outstanding Pakistani, Progressive poet. Also counted among leading fiction-writers. Edited an important literary magazine Funoon.

احمد ندیم قاسمی کی نظم

    اظہار

    تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا بے نیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ تو نے گھبرا کے مرا نام نہ پوچھا ہوتا تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب و ہوا کی باتیں اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو ...

    مزید پڑھیے

    ترک دریوزہ

    اب نہ پھیلاؤں گا میں دست سوال میں نے دیکھا ہے کہ مجبور ہے تو میری دنیا سے بہت دور ہے تو تیری قسمت میں جہاں بانی ہے میری تقدیر میں حیرانی ہے بزم ہستی میں سرافراز ہے تو میرے انجام کا آغاز ہے تو تو ہے آسودۂ فرش سنجاب خلد ہے تیرے شبستاں کا جواب مسجد شہر کی محراب کا خم تیری تقدیس کی ...

    مزید پڑھیے

    تحریر

    ہوا لہروں پہ لکھتی ہے تو پانی پر تحریر کرتا ہے کہ ہم فرزند آدم کی طرح سب نقش گر ہیں اہل فن ہیں زندگی تخلیق کرتے ہیں ستارہ ٹوٹ جاتا ہے مگر بجھنے سے پہلے اپنی اس جگ مگ عبارت سے فنا پر خندہ زن ہوتا ہے میں مٹ کر بھی آنے والے لمحوں میں درخشاں ہوں جو پتا شاخ سے گرتا ہے قرطاس ہوا پر دائروں ...

    مزید پڑھیے

    قریۂ محبت

    بہت شدید تشنج میں مبتلا لوگو یہاں سے دور محبت کا ایک قریہ ہے یہاں دھوئیں نے مناظر چھپا رکھے ہیں مگر افق بقا کا وہاں سے دکھائی دیتا ہے یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے

    مزید پڑھیے

    ڈھلان

    ریت پر ثبت ہیں یہ کس کے قدم حسن کو نرم خرامی کی قسم سر ساحل مری تخئیل جواں گزری ہے یا کوئی انجمن گل بدناں گزری ہے موج نے نقش قدم چاٹ لیے میری تخئیل کے پر کاٹ لیے لوگ دریاؤں کے انجام سے ڈر جاتے ہیں اب تو رستے بھی سمندر میں اتر جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    جنگل کی آگ

    آگ جنگل میں لگی تھی لیکن بستیوں میں بھی دھواں جا پہنچا ایک اڑتی ہوئی چنگاری کا سایہ پھیلا تو کہاں جا پہنچا تنگ گلیوں میں امڈتے ہوئے لوگ گو بچا لائے ہیں جانیں اپنی اپنے سر پر ہیں جنازے اپنے اپنے ہاتھوں میں زبانیں اپنی آگ جب تک نہ بجھے جنگل کی بستیوں تک کوئی جاتا ہی نہیں حسن اشجار ...

    مزید پڑھیے

    تدفین

    تدفین چار طرف سناٹے کی دیواریں ہیں اور مرکز میں اک تازہ تازہ قبر کھدی ہے کوئی جنازہ آنے والا ہے کچھ اور نہیں تو آج شہادت کا کلمہ سننے کو ملے گا کانوں کے اک صدی پرانے قفل کھلیں گے آج مری قلاش سماعت کو آواز کی دولت ارزانی ہوگی دیواروں کے سائے میں اک بہت بڑا انبوہ نمایاں ہوتا ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    لرزتے سائے

    وہ فسانہ جسے تاریکی نے دہرایا ہے میری آنکھوں نے سنا میری آنکھوں میں لرزتا ہوا قطرہ جاگا میری آنکھوں میں لرزتے ہوئے قطرے نے کسی جھیل کی صورت لے لی جس کے خاموش کنارے پہ کھڑا کوئی جواں دور جاتی ہوئی دوشیزہ کو حسرت و یاس کی تصویر بنے تکتا ہے حسرت و یاس کی تصویر چھناکا سا ہوا اور پھر ...

    مزید پڑھیے

    بہت سے بچوں کا گھر

    ابا تو چلے گئے ہیں دفتر امی کو بخار آ رہا ہے چھمن تو گیا ہوا ہے بازار جمن کھانا پکا رہا ہے زیبن کو اسی کا تازہ بچہ پکا گانا سنا رہا ہے امجد صوفے پر کوئلے سے کالا طوطا بنا رہا ہے اسلم دادی کی لے کے تصویر اس کی مونچھیں اگا رہا ہے توقیر بلیڈ کے کمالات قالین پہ آزما رہا ہے چھ سات ...

    مزید پڑھیے

    شرارت

    اک بکس کہیں سے لائیں گے روغن سے اسے چمکائیں گے اک ڈبے میں باسی پھلکوں کا اک انبار لگائیں گے لڑکوں سے کہیں گے آؤ گرامو فون فون تمہیں سنوائیں گے صندوق اور ڈبہ کھول کے پھر ناچیں گے شور مچائیں گے آج اپنے ہر ہمجولی کو ہم الو خوب بنائیں گے امجد چونی اور تلسی کو دعوت پہ بلایا جائے گا اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5