انفصال
دوستو تم تو کندھوں سے اوپر نظر ہی نہیں آ رہے ہو چلو اپنے چہرے ندامت کی المایوں سے نکالو انہیں جھاڑ کر گردنوں پر رکھو تم ادھورے نہیں ہو تو پورے دکھائی تو دو
پاکستان کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر، اہم افسانہ نگاروں میں بھی ممتاز، اپنے رسالے ’فنون‘ کے لئے مشہور، سعادت حسن منٹو کے ہم عصر
Most outstanding Pakistani, Progressive poet. Also counted among leading fiction-writers. Edited an important literary magazine Funoon.
دوستو تم تو کندھوں سے اوپر نظر ہی نہیں آ رہے ہو چلو اپنے چہرے ندامت کی المایوں سے نکالو انہیں جھاڑ کر گردنوں پر رکھو تم ادھورے نہیں ہو تو پورے دکھائی تو دو
سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں چاند بلور کی ٹوٹی ہوئی چوڑی کی طرح اٹکا ہے دامن کوہ کی اک بستی میں ٹمٹماتے ہیں مزاروں پہ چراغ آسماں سرمئی فرغل میں ستارے ٹانکے سمٹا جاتا ہے جھکا آتا ہے وقت بے زار نظر آتا ہے سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں صبح کی نقرئی تنویر رچی جاتی ہے دامن ...
یوم مزاجی یاروں کی سب میری دیکھی بھالی رات کی تاریکی میں ان کی انگارہ سی آنکھیں پوری دن کو اندھی اور ادھوری خالی دن کے یہ درویش مگر راتوں کے والی اپنے محسن کو جب دن کے آئینے میں دیکھیں فرط ادب سے سمٹیں سکڑیں جھک جائیں اور کچلے مسئلے روندے لہجے میں پوچھیں کیسا ہے مزاج عالی رات کو ...
اپنے ماضی کے گھنے جنگل سے کون نکلے گا! کہاں نکلے گا بے کراں رات ستارے نابود چاند ابھرا ہے؟ کہاں ابھرا ہے؟ اک فسانہ ہے تجلی کی نمود کتنے گنجان ہیں اشجار بلند کتنا موہوم ہے آدم کا وجود مضمحل چال قدم بوجھل سے اپنے ماضی کے گھنے جنگل سے مجھ کو سوجھی ہے نئی راہ فرار آہن و سنگ و شرر ...
مہرباں رات نے اپنی آغوش میں کتنے ترسے ہوئے بے گناہوں کو بھینچا دلاسا دیا اور انہیں اس طرح کے گناہوں کی ترغیب دی جس طرح کے گناہوں سے میلاد آدم ہوا تھا
مجھے سمیٹو میں ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں نہ جانے میں بڑھ رہا ہوں یا اپنے ہی غبار سفر میں ہر پل اتر رہا ہوں نہ جانے میں جی رہا ہوں یا اپنے ہی تراشے ہوئے نئے راستوں کی تنہائیوں میں ہر لحظہ مر رہا ہوں میں ایک پتھر سہی مگر ہر سوال کا بازگشت بن کر جواب دوں گا مجھے پکارو مجھے صدا دو میں ایک ...
کتنی ویران ہے یہ محفل شب نہ ستارے نہ چراغ اک گھنی دھند ہے گردوں پہ محیط چاند ہے چاند کا داغ پھیلتے جاتے ہیں منظر کے خطوط بجھتا جاتا ہے دماغ راستے گھل گئے تاریکی میں توڑ کر زعم سفر کون حد نظر دیکھ سکے مٹ گئی حد نظر سیکڑوں منزلیں طے کر تو چکے لیکن اب جائیں کدھر آسماں ہے نہ زمیں ہے ...
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ...
ایک رقاصہ تھی کس کس سے اشارے کرتی آنکھیں پتھرائی اداؤں میں توازن نہ رہا ڈگمگائی تو سب اطراف سے آواز آئی ''فن کے اس اوج پہ اک تیرے سوا کون گیا'' فرش مرمر پہ گری گر کے اٹھی اٹھ کے جھکی خشک ہونٹوں پہ زباں پھیر کے پانی مانگا اوک اٹھائی تو تماشائی سنبھل کر بولے رقص کا یہ بھی اک انداز ہے ...
شجر سے ٹوٹ کے جب میں گرا کہاں پہ گرا مجھے تلاش کرو جن آندھیوں نے مری سر زمیں ادھیڑی تھی وہ آج مولد عیسیٰ میں گرد اڑاتی ہیں جو ہو سکے تو انہی سے مرا پتہ پوچھو مجھے تلاش کرو چلی جو مشرق و مغرب سے تند و تیز ہوا مرے شجر نے مجھے پیار سے سمیٹ لیا مجھے لپیٹ لیا اپنی کتنی باہوں میں یہ بے ...