میری محدود بصارت کا نتیجہ نکلا
میری محدود بصارت کا نتیجہ نکلا آسماں میرے تصور سے بھی ہلکا نکلا روز اول سے ہے فطرت کا رقیب آدم زاد دھوپ نکلی تو مرے جسم سے سایہ نکلا سر دریا تھا چراغاں کہ اجل رقص میں تھی بلبلا جب کوئی ٹوٹا تو شرارا نکلا بات جب تھی کہ سر شام فروزاں ہوتا رات جب ختم ہوئی صبح کا تارا نکلا مدتوں ...