Ahmad Mahfuz

احمد محفوظ

معروف ناقد اور شاعر، میر تقی میر پر اپنی تنقیدی تحریروں کے لیے معروف، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبۂ اردو سے وابستہ

Well-known critic, poet, and Urdu faculty at Jamia Millia Islamia, known for his critical book on MeerTaqi Meer

احمد محفوظ کی غزل

    چھوڑو اب اس چراغ کا چرچا بہت ہوا

    چھوڑو اب اس چراغ کا چرچا بہت ہوا اپنا تو سب کے ہاتھوں خسارہ بہت ہوا کیا بے سبب کسی سے کہیں اوبتے ہیں لوگ باور کرو کہ ذکر تمہارا بہت ہوا بیٹھے رہے کہ تیز بہت تھی ہوائے شوق دشت ہوس کا گرچہ ارادہ بہت ہوا آخر کو اٹھ گئے تھے جو اک بات کہہ کے ہم سنتے ہیں پھر اسی کا اعادہ بہت ہوا ملنے ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کہتے تھے وہ موسم ہی نہیں آنے کا

    لوگ کہتے تھے وہ موسم ہی نہیں آنے کا اب کے دیکھا تو نیا رنگ ہے ویرانے کا بننے لگتی ہے جہاں شعر کی صورت کوئی خوف رہتا ہے وہیں بات بگڑ جانے کا ہم کو آوارگی کس دشت میں لائی ہے کہ اب کوئی امکاں ہی نہیں لوٹ کے گھر جانے کا دل کے پت جھڑ میں تو شامل نہیں زردی رخ کی رنگ اچھا نہیں اس باغ کے ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے

    کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے ہمیں ہوا کی زد میں تھے ہمیں شکار ہو گئے سیاہ دشت خار سے کہاں دو چار ہو گئے کہ شوق پیرہن تمام تار تار ہو گئے یہاں جو دل میں داغ تھا وہی تو اک چراغ تھا وہ رات ایسا گل ہوا کہ شرمسار ہو گئے عزیز کیوں نہ جاں سے ہو شکست آئنہ ہمیں وہاں تو ایک عکس تھا ...

    مزید پڑھیے

    بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے

    بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے تو پھر یہ خواب کنارہ کہاں سے ملتا ہے یہ دھوپ چھاؤں سلامت رہے کہ تیرا سراغ ہمیں تو سایۂ ابر رواں سے ملتا ہے ہم اہل درد جہاں بھی ہیں سلسلہ سب کا تمہارے شہر کے آشفتگاں سے ملتا ہے جہاں سے کچھ نہ ملے تو بھی فائدے ہیں بہت ہمیں یہ نقد اسی آستاں سے ملتا ...

    مزید پڑھیے

    اپنا سوچا ہوا اگر ہو جائے

    اپنا سوچا ہوا اگر ہو جائے ایک عالم ہمارے سر ہو جائے شور دشت سکوت میں کم ہے اے ہوا تو ہی تیز تر ہو جائے نہ کریں گے وہ رخ ادھر اپنا چاہے دنیا ادھر ادھر ہو جائے درد آواز رفتہ رفتہ بنے آہ شب نالۂ سحر ہو جائے کتنی راہیں کھلی ہیں اپنے لیے دیکھیے کب کدھر سفر ہو جائے اس لیے ہوشیار ...

    مزید پڑھیے

    کسی کا عکس بدن تھا نہ وہ شرارہ تھا

    کسی کا عکس بدن تھا نہ وہ شرارہ تھا تو میں نے خیمۂ شب سے کسے پکارا تھا کہاں کسی کو تھی فرصت فضول باتوں کی تمام رات وہاں ذکر بس تمہارا تھا مکاں میں کیا کوئی وحشی ہوا در آئی تھی تمام پیرہن خواب پارہ پارہ تھا اسی کو بار دگر دیکھنا نہیں تھا مجھے میں لوٹ آیا کہ منظر وہی دوبارہ ...

    مزید پڑھیے

    پھینکتے سنگ صدا دریائے ویرانی میں ہم

    پھینکتے سنگ صدا دریائے ویرانی میں ہم پھر ابھرتے دائرہ در دائرہ پانی میں ہم اک ذرا یوں ہی بسر کر لیں گراں جانی میں ہم پھر تمہیں شام و سحر رکھیں گے حیرانی میں ہم اک ہوا آخر اڑا ہی لے گئی گرد وجود سوچیے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم وہ تو کہئے دل کی کیفیت ہی آئینہ نہ تھی ورنہ ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرا سا کیا تھا ابلتا ہوا

    اندھیرا سا کیا تھا ابلتا ہوا کہ پھر دن ڈھلے ہی تماشا ہوا یہیں گم ہوا تھا کئی بار میں یہ رستہ ہے سب میرا دیکھا ہوا نہ دیکھو تم اس ناز سے آئینہ کہ رہ جائے وہ منہ ہی تکتا ہوا نہ جانے پس کارواں کون تھا گیا دور تک میں بھی روتا ہوا کبھی اور کشتی نکالیں گے ہم ابھی اپنا دریا ہے ٹھہرا ...

    مزید پڑھیے

    اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا

    اب اس مکاں میں نیا کوئی در نہیں کرنا یہ کام سہل بہت ہے مگر نہیں کرنا ذرا ہی دیر میں کیا جانے کیا ہو رات کا رنگ سو اب قیام سر رہ گزر نہیں کرنا بیاں تو کر دوں حقیقت اس ایک رات کی سب پہ شرط یہ ہے کسی کو خبر نہیں کرنا رفوگری کو یہ موسم ہے سازگار بہت ہمیں جنوں کو ابھی جامہ در نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اٹھئے کہ پھر یہ موقع ہاتھوں سے جا رہے گا

    اٹھئے کہ پھر یہ موقع ہاتھوں سے جا رہے گا یہ کارواں ہے آخر کب تک رکا رہے گا زخموں کو اشک خوں سے سیراب کر رہا ہوں اب اور بھی تمہارا چہرہ کھلا رہے گا بند قبا کا کھلنا مشکل بہت ہے لیکن لیکن کھلا تو پھر یہ عقدہ کھلا رہے گا سرگرمیٔ ہوا کو دیکھا ہے پاس دل کے اس آگ سے یہ جنگل کب تک بچا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3