Ahmad Mahfuz

احمد محفوظ

معروف ناقد اور شاعر، میر تقی میر پر اپنی تنقیدی تحریروں کے لیے معروف، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبۂ اردو سے وابستہ

Well-known critic, poet, and Urdu faculty at Jamia Millia Islamia, known for his critical book on MeerTaqi Meer

احمد محفوظ کی غزل

    سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے

    سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے اور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے کب سے سنتا ہوں وہی ایک صدائے خاموش کوئی تو ہے جو بلندی سے بلاتا ہے مجھے رات آنکھوں میں مری گرد سیہ ڈال کے وہ فرش بے خوابئ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے گم شدہ میں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں دیکھتا ہوں وہ کدھر ...

    مزید پڑھیے

    نہیں آسماں تری چال میں نہیں آؤں گا

    نہیں آسماں تری چال میں نہیں آؤں گا میں پلٹ کے اب کسی حال میں نہیں آؤں گا مری ابتدا مری انتہا کہیں اور ہے میں شمارۂ مہ و سال میں نہیں آؤں گا ابھی اک عذاب سے ہے سفر اک عذاب تک ابھی رنگ شام زوال میں نہیں آؤں گا وہی حالتیں وہی صورتیں ہیں نگاہ میں کسی اور صورت حال میں نہیں آؤں ...

    مزید پڑھیے

    ان آنکھوں میں رنگ مے نہیں ہے

    ان آنکھوں میں رنگ مے نہیں ہے کچھ اور ہے یہ وہ شے نہیں ہے کشتی تو رواں ہے کب سے شب کی کس گھاٹ لگے گی طے نہیں ہے کیا دل میں بساؤں تیری صورت آئینے میں عکس ہے نہیں ہے دامن کو ذرا جھٹک تو دیکھو دنیا ہے کچھ اور شے نہیں ہے آہنگ سکوت دم بہ دم سن یہ ساز نفس ہے نے نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    رقص شرر کیا اب کے وحشت ناک ہوا

    رقص شرر کیا اب کے وحشت ناک ہوا جلتے جلتے سب کچھ جل کر خاک ہوا سب کو اپنی اپنی پڑی تھی پوچھتے کیا کون وہاں بچ نکلا کون ہلاک ہوا موسم گل سے فصل خزاں کی دوری کیا آنکھ جھپکتے سارا قصہ پاک ہوا کن رنگوں اس صورت کی تعبیر کروں خواب ندی میں اک شعلہ پیراک ہوا ناداں کو آئینہ ہی عیار ...

    مزید پڑھیے

    میں بند آنکھوں سے کب تلک یہ غبار دیکھوں

    میں بند آنکھوں سے کب تلک یہ غبار دیکھوں کوئی تو منظر سیاہ دریا کے پار دیکھوں کبھی وہ عالم کہ اس طرف آنکھ ہی نہ اٹھے کبھی یہ حالت کہ اس کو دیوانہ وار دیکھوں یہ کیسا خوں ہے کہ بہہ رہا ہے نہ جم رہا ہے یہ رنگ دیکھوں کہ دل جگر کا فشار دیکھوں یہ ساری بے منظری سواد سکوت سے ہے صدا وہ ...

    مزید پڑھیے

    ادھر سے آئے تو پھر لوٹ کر نہیں گئے ہم

    ادھر سے آئے تو پھر لوٹ کر نہیں گئے ہم پکارتی رہی دنیا مگر نہیں گئے ہم اگرچہ خاک ہماری بہت ہوئی پامال برنگ نقش کف پا ابھر نہیں گئے ہم حصول کچھ نہ ہوا جز غبار حیرانی کہاں کہاں تری آواز پر نہیں گئے ہم منا رہے تھے وہاں لوگ جشن بے خوابی یہاں تھے خواب بہت سو ادھر نہیں گئے ہم چڑھا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    آیا ہی نہیں کوئی بوجھ اپنا اٹھانے کو

    آیا ہی نہیں کوئی بوجھ اپنا اٹھانے کو کب تک میں چھپا رکھتا اس خواب خزانے کو دیکھا نہیں رخ کرتے جس طرف زمانے کو جی چاہتا ہے اکثر اس سمت ہی جانے کو یہ شغل زبانی بھی بے صرفہ نہیں آخر سو بات بناتا ہوں اک بات بنانے کو اس کنج طبیعت کی ممکن ہے ہوا بدلے جھونکا کوئی آ جائے پتے ہی اڑانے ...

    مزید پڑھیے

    زخم کھانا ہی جب مقدر ہو

    زخم کھانا ہی جب مقدر ہو پھر کوئی پھول ہو کہ پتھر ہو میں ہوں خواب گراں کے نرغے میں رات گزرے تو معرکہ سر ہو پھر غنیموں سے بے خبر ہے سپاہ پھر عقب سے نمود لشکر ہو کیا عجب ہے کہ خود ہی مارا جاؤں اور الزام بھی مرے سر ہو ہیں زمیں پر جو گرد باد سے ہم یہ بھی شاید فلک کا چکر ہو اس کو تعبیر ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے

    یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے گہرائی میں کیوں نہ اتر کر دیکھا جائے تیز ہوائیں یاد دلانے آئی ہیں نام ترا پھر ریت پہ لکھ کر دیکھا جائے شور حریم ذات میں آخر اٹھا کیوں اندر دیکھا جائے کہ باہر دیکھا جائے گاتی موجیں شام ڈھلے سو جائیں گی بعد میں ساحل پہلے سمندر دیکھا جائے سارے ...

    مزید پڑھیے

    یہاں سے تو اب راستہ ہی نہیں

    یہاں سے تو اب راستہ ہی نہیں تو کیا کوئی آگے گیا ہی نہیں ادھر کی ہی شاید خبر کچھ ملے ادھر کا تو کوئی پتہ ہی نہیں وہی شہر جس کا بہت شور تھا سنا ہے کچھ اب بولتا ہی نہیں کہاں تک یوں ہی خود کو دیتے صدا وہاں تو کوئی اور تھا ہی نہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3