سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے
سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے اور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے کب سے سنتا ہوں وہی ایک صدائے خاموش کوئی تو ہے جو بلندی سے بلاتا ہے مجھے رات آنکھوں میں مری گرد سیہ ڈال کے وہ فرش بے خوابئ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے گم شدہ میں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں دیکھتا ہوں وہ کدھر ...